سرینگر//سردیوں کا آغاز ہوتے ہی کشمیر وادی میں خشک مچھلیوں کا استعمال شروع ہو جاتا ہے اور مچھلیوں کو سکھانے میں کافی محنت درکار ہوتی ہے ان مچھلیوں کو زیادہ تر آنچار جھیل کے کناروں پر لوگ فروخت کرتے ہیں اور ان دنوں وہاں ٹھنڈ بڑھنے کے ساتھ ہی لوگوں کی خرید وفروخت جوبن پر ہے ۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سردیوں میں ان سوکھی مچھلیوں کی ڈمانڈ بڑھ جاتی ہے اور وادی کے کونے کونے سے لوگ یہاں پہنچ کر ان کی خرید وفروخت کرتے ہیں ۔کشمیر میں سخت سردیوں کی آمد خشک مچھلیوں کو’فروخت اور ان کا ذایقہ چکنے کے عمل کے آغاز کی نشاندہی کرتی ہے، جسے مقامی طور پر (فرری )کے نام سے جانا جاتا ہے جو کشمیر کے قدیم موسم سرما کے پکوانوں میں سے ایک ہے۔یہ عمل مچھلیوں کو پکڑنے کے ساتھ شروع ہوتا ہے، جو اس کے بعد خشک گھاس کی تہوں پر رکھی جاتی ہیں۔سوکھی گھاس کو آگ لگا کر سینکڑوں کلوگرام مچھلیوں کو دھواں دیا جاتا ہے۔مچھلی کو دھوپ میں سوکھنے کیلئے چھوڑنے کے بعد، وہ بازار میں فروخت کیلئے تیار ہو جاتی ہیں، جس سے یہ سیزن کے دوران مچھلی بیچنے والوں کیلئے آمدنی کا ایک اچھا ذریعہ بن جاتا ہے۔اس قسم کی مچھلی کو گھر لانے پرانہیں اچھی طرح سے صاف کیا جاتا ہے اور باہر کی جلی ہوی تہہ کو کھرچ دیا جاتا ہے، عام طور پر یہ کام وہ خواتین کرتے ہیں جو کئی سالوں سے اس طرح کی صفائی کی ماہر ہوتی ہیں۔اس لذیذ مچھلی کو ٹماٹر، مولی، یا عام طور پر ساک کے علاوہ بہت سارے مسالوں کے ساتھ ملا کر پکایا جاتا ہے اور بعد میں ابلے ہوئے گرم چاول کے ساتھ اس کا مزہ لیا جاتا ہے۔خشک سبزیوں جیسے ٹماٹر، بیگن، لوکی، شلجم وغیرہ کے ساتھ اس مچھلی کو کشمیری شدید سردی کے موسم میں استعمال کرنے کیلئے ذخیرہ کرتے ہیں عام طور پر پہاڑی علاقوں میں رہنے والے لوگ موسم بہار میں جنگلی سبزی لاکر اس کو صاف کرکے سکھاتے ہیں جس میں جنگلی ساگ، ہند، ہنڈ جن کو مشروم کہا جاتا ہے اور موسم سرما کے دوران پہاڑی علاقوں میں رہنے والے لوگ خاص کر بزرگ استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح مچھلیوں کو صاف کرنے اور گھاس کی تہو پر جلانا اور پھر بازار میں فروخت کرنے میں آنچار صورہ میں ہوتا ہے جہاں کے لوگ برسوں سے یہ کام انجام دیتے ہیں ۔