غلام ثاقب بیڑ
ایوب نلامندو مراٹھی کا آدمی ہے یا اردو کا بہت سے لوگ کنفیوز رہتے ہیں۔ ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔
سولاپور میں کم سے کم دو چیزیں قابل ذکر ہیں۔ ایک وہاں کا ذائقے دار کھانا دوسرے وہاں کے پھولوں کے ہار۔ پھول اور ایوب نلامندو میں دو باتیں کامن ہیں۔ ایک تو یہ کہ پھول مسکراتے ہیں اور سب کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتے ہیں۔اوپر کی جیب میں پین رکھے ہوئے سفاری سوٹ میں میانہ سے تھوڑا کم قد اور پرکشش گندمی سانولی رنگت ہلکی خشخشی داڑھی اور سر دماغ سے پُر سر کے اطراف میں ہلالی چاند نما بالوں کے بیچ مکمل گول چمکتا ہوا چاند سا پیکر اور ان میں بڑی بڑی آنکھیں۔ تعلیمی عمارت میں گرے کلر کے سفاری میں یہاں وہاں ڈول رہا ہے۔یہی ایوب نلامندو ہیں۔
۔ یہ انسان مراٹھی زبان کو اردو تہذیب سے روشن کرا رہا ہے۔ ایوب صاحب یوں تو بڑے سچے انسان ہیں۔ اور ان کا قد سماج میں بڑا ہے۔ بس اپنے والد کے گن گانے والے شخص کا نام ایوب نلامندو ہے۔
ایوب نلامندو کے سر نیم کو لیکر ہمیشہ ذہن الگ الگ زاویے بناتا رہا ہے۔ کوئی اسے لام کی تشدید کے ساتھ تو کوئی دال کو ڈال بنا کر۔جتنے منہ اتنے املے۔ اس بات سے ایوب صاحب ہمیشہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔
قدرتی خوشنما دانتوں سے ان کی ہنسی اور کھلی کھلی نظر آتی ہے۔ چہرے پر دمک آجاتی ہے۔ والد کے نقش قدم پر قاصد نامی ہفت روزہ کا پرنٹ میڈیا بھی سنبھالتے ہیں اور مقصد اشاعت بھی۔
1990 سے تو یہی مدیر ہیں۔ ان کے والد مسلم مراٹھی ساہتیہ پریشد کے بانی صدر تھے۔ ان کے تعلقات بڑے اہم ترین شخصیات سے رہے ہیں۔ان کی چاہت تھی کہ وہ گاؤں دیہات کے مراٹھی بولنے والا مسلمانوں تک مراٹھی زبان میں دین اسلام کی تعلیمات پہنچائیں۔
آنجہانی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی جب سولاپور آئے تو انہوں نے حاجی عبداللطیف نلامندو سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ اور ان سے ملاقات کی۔
ایوب نلامندو کا ذوق سلیم بہت بلند ہے۔ مسلسل اردو مجالس کی شمعیں ان کے شمع اسکول ہال میں جلتی رہتی ہیں۔ وہ بڑی مستعدی سے اردو کے فروغ میں لگے ہوئے ہیں۔ اردو کو مراٹھی صحافت سے جوڑے رکھنے کا مہتم بالشان فریضہ پورے انہماک کے ساتھ وہ انجام دے رہے ہیں۔
صرف اتنا ہی نہیں کہ اردو کے پروگرامات منعقد کرا دئیے اور بات ختم وہ باقاعدہ پروگرام کے بعد پر تکلف دعوت کا نظم کرتے ہیں۔ ایوب صاحب اسکول کے سکریٹری ہونے کے باوجود مہمانوں کے لئے کرسیاں لگا رہے ہیں۔ مہمانوں کو کھانا برت رہے ہیں۔ اسکول اور اردو اداروں کو وہ شکم پروری کا ذریعہ نہیں بلکہ قوم و ملت کی امانت سمجھتے ہیں۔ خدا ترسی اور حقوق العباد سے وہ پوری طرح واقف ہیں۔
مراٹھی اور اردو کے مکس کلچر والی سولاپوری زبان کے وہ ماہر ہیں۔ شولاپوری ادیبوں کی فہرست یا البم میں ایوب نلامندو اول قطار میں کھڑے نظر آجائیں گے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ قطار میں ایوب نلامندو آگے ہی کھڑے ہوں۔ اس کی دو وجہیں شمار کی جاسکتی ہیں ایک یہ کہ ایوب نلامندو خلوص کا پیکر ہیں صلے کی تمنا ہے نہ بدلے کی امید۔ بس مسکرا دیجئے وہ آپ کو خوش دیکھ کر اپنی محنت کامیاب سمجھیں گے۔ حالانکہ دور حاضر میں لوگ مسکرانے والے کے حاسد بن جاتے ہیں جبکہ ایوب صاحب حسد کو شجر ممنوعہ قرار دیتے ہیں۔ اسی لئے تو وہ سلطان اختر اور مظہر الوڑی کے خاص دوست ہیں۔ دوسری وجہ یہ کہ وہ متحرک و با مقصد انسان ہیں۔ وہ ہمسفر سے زیادہ عزم سفر کے قائل ہیں۔
اردو اور مراٹھی کا حسیں سنگم ہیں ایوب صاحب اردو ان کی محبوبہ ہے اور مراٹھی ان کا دوست۔ انہی کی وجہ سے آج مراٹھی زبان کے ادیب اور صحافی حضرات اردو والوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے سولاپور کا مراٹھی کا کوئی پروگرام ہو اردو والوں کے بغیر پورا نہیں ہوتا۔ اور اردو پروگرام میں شرکت کے متمنی مراٹھی زبان والے ایوب صاحب کو فون کرکر کے پریشان کرتے ہیں کہ ایوب صاحب اردو کا پروگرام کر رہے ہو آپ ہم کو بھول مت جانا۔ ہم ضرور آئیں گے۔
ایک وصف خاص یہ بھی ہے ایوب صاحب میں کہ وہ غیر کی محفل میں حق گوئی اور بیباکی نہیں بھولتے اور کسی سے مرعوب نہیں ہوتے۔
وہ اغیار کی محفل میں خود فراموشی کا شکار نہیں ہوتے۔ سب اردو والوں کو برابری کا درجہ دیکر اسے سب کی نظر میں بڑا بنادیتا ہے یہ شخص۔ اتنا مخلص ہے کہ آپ کو بھری محفل میں اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ سولاپور میں خلوص و محبت کے جیتے جاگتے پیکر سے ملنا تو ایوب نلامندو سے ضرور ملئے۔
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاًاپنی ہیں اور انہیںکسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)