جموں و کشمیر حکومت نے حال ہی میں ایک مشاورتی ایجنسی کی خدمات حاصل کی ہیںجو یہ تعین کرے گی کہ سندھ طاس معاہدے میں ریاست جموں و کشمیر نے آج تک کیا کچھ کھویا ہے۔ مشاوراتی ایجنسی کو مقرر کرنے کی خبر’’ گریٹر کشمیر‘‘ میں 20جنوری کی شاہ سرخیوں میں شامل تھی۔یہ خبر متعلقہ سرکاری اداروں کے وسیلے سے ہی ملی تھی جس کی بعد میں سرکاری اہلکاروں نے تصدیق بھی کی۔ مشاوراتی ایجنسی ڈنمارک کی ایک نجی ایجنسی ہے جو ڈینش ھیڈرالک انسٹی ٹیوٹ [Danish Hydraulic Institute (DHI)] کے نام سے جانی جاتی ہے اور بھارت میں ماحولیات اور پانی کے مسائل سے متعلق مصروف عمل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈنمارک کی مشاوراتی ایجنسی نے ریاست جموں و کشمیر میں کئی دریاؤں کا معائینہ بھی کیا ہے اور اِس ایجنسی اور پاور ڈیو لپمنٹ کارپوریشن (پی ڈی سی)[Power Development Corporation (PDC)] کے اہلکاروں کے مابین میٹنگ بھی ہوئی ہے جس میں یہ فیصلہ لیا گیا ہے کہ مشاوراتی ایجنسی کو اپنے کام کی تکمیل کیلئے 44 ہفتوں کی مدت دی جائے۔
پی ڈی سی کے ناظم اعلیٰ شاہ فیصل کا یہ کہنا ہے کہ یہ ایک گہرا مطالعہ ہو گا جس سے سندھ طاس معاہدے کے بارے میں معلومات فراہم ہوں گی اور مزید یہ جانکاری بھی حاصل ہو گی کہ اِس معاہدے کے نتیجے میں ریاست جموں و کشمیر کو کتنا نقصان ہوا ہے۔شاہ فیصل کے قول و حکومتی فعل میں کس قدر فاصلہ ہوگا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا البتہ اِس عمل میں آج تک کے حکومتی اقدامات کو جانچا جائے تو عوامی حلقوں میں منفی رحجانات کا ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ آج گئے کوئی پانچ سال پہلے جموں و کشمیر سرکار نے ایک اور مشاوراتی ایجنسی کی خدمات حاصل کی تھیں ۔ ہا لکرو (Halcrow ) نامی اِس ایجنسی کا تعلق برطانیہ سے تھالیکن حکومت کی عدم توجہ کے سبب اِس ایجنسی کی خدمات کا حصول سال بھر تک التوا میں رہا اور انجام کار اِس ایجنسی نے خدمات شروع کرنے سے پہلے ہی اپنا ہاتھ کھنچ لیا۔پانچ سال پہلے عمر عبداللہ نیشنل کانفرنس اور گانگریس کی ملی جلی سرکار کی رہنمائی کر رہے تھے اور اُس زمانے میں شد و مد کے ساتھ یہ ذکر ہو رہا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر سندھ طاس معاہدے میں بہت کچھ کھو چکی ہے اور نقصانات کا معاوضہ ریاست کو ملنا چاہیے۔یہ سب لمبی بات اور کوتاہ عملی پہ منتج ہوا۔اب پانچ سال بعد ایک اور ریاستی سرکار کو جس کی رہنمائی محبوبہ مفتی کر رہی ہیں یہ یاد آیا کہ ریاست جموں و کشمیر سند طاس معاہدے میں اپنے اثاثے کھو چکی ہے اور ایک اور مشاوراتی عمل کی خبر گرم ہے۔
ریاستی حکومتیں ماضی اور حال میں اہم ترین ریاستی اثاثوں کی باز یافت میں کس حد تک مخلص ہیں اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دہلی کے حکمران اِس ضمن میں کیا رائے رکھتے ہیں۔دہلی میں جب کانگریس کی سر کردگی میں یو پی اے (UPA) سرکار راج سنگھاسن پہ براجمان تھی تو نیشنل کانفرنس کے راجیہ سبھا ایم پی رتن پوری کے ایک سوال کے جواب میں وزیر آبی ذخائر پون بنسل نے کہا کہ ’’ سندھ طاس معاہدہ کے طے ہونے کے بعد سے کسی بھی ریاستی سرکار نے مرکزی سرکار سے یہ استدعا نہیں کی ہے کہ اِس معاہدے کے ضمن میں دوبارہ گفت شنید کی جائے نہ ہی ریاست کو جو خسارہ ہوا ہے اُس کے تخمینے یا خسارے کے معاوضے کے بارے میں مرکزی سرکار سے کوئی تقاضا ہوا ہے‘‘ رتن پوری کے سندھ طاس معاہدے کے ضمن میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں پون بنسل کے جواب سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ماضی اور حال کی ریاستی سرکاریں اِس معاملے میں کتنی سنجیدہ رہی ہیں ۔ اِس بارے میں بیاں بازی در اصل ریاست کی سرحدوں تک محدود ہ رہی ہے بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی ریاستی سرکار یہ ہمت نہیں باندھ سکی ہے کہ دہلی سرکار سے اِس ضمن میں آنکھ سے آنکھ ملاکر بات کر سکے۔جہاں تک دہلی سرکار کا سوال ہے سندھ طاس معاہدے کے ضمن میں جب سے یہ معاہدہ 1960ء میں طے ہوا نہ ہی ریاستی سرکار کو اعتماد میں لیا گیا نہ ہی 1960ء سے آج تک ہوئے خسارے کے بارے میں کوئی ذکر ہوا ہے۔ ریاست کو ہوئے خسارے کے بارے میں جاننے سے پہلے سندھ طاس معاہدے پہ ایک طائرانہ نظر ڈالناضروری ہے۔
بر صغیر میں پانی ایک مسلٔہ بنتا جا رہا ہے بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ بر صغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی پانی ایک مسلٔہ بن گیا۔عام تصوریہی ہے کہ گرداسپور کے حصول کا مدعا و مقصد جموں و کشمیر میں راہداری کا حصول تھا لیکن اُس کا ایک اور مقصد یہ بھی تھا کہ سندھ طاس کے تمام دریابھارت کی دسترس میں رہیں، کہنے کو کشمیر تو بھارت کا حصہ بنا یا ہی گیااور اُسی کے ساتھ سندھ طاس کا وسیع مغربی سلسلہ جو ریاست جموں و کشمیر کے تین دریاؤں ،جہلم،پنجاب و سندھ پہ مشتمل ہے بھارت کی دسترس میں آ گیا۔سندھ طاس کے مشرقی دریا ،راوی،ستلج و بیاس پہلے ہی بھارت کی دسترس میں آ چکے تھے جب پنجاب بھارتی و پاکستانی پنجاب میں تقسیم ہوا۔سندھ طاس کے مشرقی و مغربی دریاؤں کا منبہ ہمالیائی پہاڑی سلسلہ ہے جو سر سبز وادی کشمیر کو گھیرے ہوئے ہے اور پنجاب و سندھ کے میدانی علاقوں کی کھیتی کو سیراب کرتے ہوئے کراچی کا ساحل پہ بحیرہ عرب کی وسعتوں میں سمو جاتا ہے۔تقسیم بر صغیر ہند و پاکستان کے دور ور تقریباََ 26 ملیون ایکڑ اراضی سندھ طاس کے وسیع آبی سلسلے سے سیراب ہوتی تھی اور ظاہر ہے کہ آج کے دور میں زیر کاشت زمین اِس تخمینے سے زیادہ ہی ہو گی ایسے میں سندھ طاس کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ پورے عالم میں کوئی بھی آبی سلسلہ اتنی وسیع اراضی کو سیراب نہیںکرتا ۔ تقسیم بر صغیر میں کافی مشکلات پیش آئیںچناچہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ تقسیم اگر چہ مذہبی بنیادوں پہ ہوئی ہے لیکن صرف و صرف مذ ہب کو بر صغیر کی تقسیم کامعیار نہیں بنایا جا سکتا۔ مذہب کے ساتھ ساتھ دو نو زاد مملکتوں کی انتظامی صلاحیت کو تحفظ بخشنے کی بات سامنے آئی ۔ مذہب کے ساتھ جو دوسرے موضوعات سامنے آئے اُنہیں لغت فرہنگی میں'Other Factors' کا نام دیا گیا یعنی دوسرے موضاعات ثانوی جن میں دریائی بہاؤ، منبہ آب اور منبہ آبیاری شامل رہے اور اِنہی موضوعات کے سبب گرداسپور بھارت کا حصہ بن گیا اور ایسے میں جموں و کشمیر کے ساتھ ساتھ سندھ طاس کے منجملہ مشرقی و مغربی دریاؤں پر بھارت کی بالادستی قائم ہوئی۔مسلہ کشمیر کے ساتھ ہی سندھ طاس کے دریا بھی دو نو زاد ملکوں میں نزاع کا باعث بن گئے۔
سندھ طاس معاہدے سے پہلے 4مئی 1948ے ایک بین الْمملکتی معاہدے کے تحت پاکستان کو پیسے کی ادائیگی کے عوض پانی فراہم کرنا طے پایا البتہ یہ سمجھوتہ عبوری تھا تا اینکہ ایک حتمی معاہدہ طے پائے ۔ بگذشت زماں یہ تصور پیش آیا کہ سندھ طاس معاہدے سے بر صغیر کے سیاسی مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔یہ تصورسب سے پہلے امریکہ کی وادی ٹینیس کی آبی انتظامیہ کے چیرمین ڈیوڈ لینتھال [David Lilienthal] نے دیا جو کہ امریکی ایٹمی توانائی کمیشن کے چیرمین بھی رہ چکے تھے۔موصوف کو گذشتہ صدی کے پانچویں دَہے کے دوران امریکہ کے مشہور جریدے’کولیرس‘ کی جانب سے یہ ماموریت ملی تھی کہ وہ جریدے کیلئے بر صغیر کے حالات کے بارے میں کچھ مقالے رقم فرمائیں۔ امریکی وزارت خارجہ نے اُن کے دورے سے سفارتی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی چناچہ اُنہیں ہند امریکی رشتے میں جو خلیج در پیش تھی اُسے پاٹنے کی کوشش کے علاوہ ہند وپاک رشتوں کی نوعیت کے بارے میں جاننے پہ مامور کیاگیا۔ ڈیوڈ لینتھال نے ہند و پاک کے حکام کے ساتھ رابطے اور حالات کی جانچ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ کشمیر میں تناؤ کو کم کرنے کا یہ وسیلہ ہو سکتا ہے کہ سندھ طاس کو باہمی مشاورت و موافقت سے منظم کیا جائے۔کہا جاسکتا ہے کہ تناؤ کو کم کرنے کی یہ مناسب تجویز تھی۔
ڈیوڈ لینتھال نے اپنے ایک مقالے میں عالمی بنک کے کرتا دھرتاؤں سے اپیل کی تھی کہ وہ درمیانہ داری سے یہ مسلہ سلجھائیں اور پس از موافقت بین الطرفین سندھ طاس پروگرام کیلئے سرمایہ فراہم کرے (نرنجن گلہاٹی۔سندھ طاس معاہدہ۔عالمی درمیانہ داری کی ایک کوشش۔صفحہ : 93)نرنجن گلہاٹی کی تصنیف میں یہ ذکر بھی آیا ہے کہ ایک بھارتی اہلکارجس کے نام کا ذکر اُنہوں نے نہیں کیا ہے نے اُن سے کہا کہ ’’بھارت اور پاکستان رہتی دنیا تک مسلہ کشمیر کو لئے ہوئے ایک دوسرے پہ چلا سکتے ہیںلیکن بر صغیر میں امنیت کیلئے سندھ طاس پہ جلد سے جلد سمجھوتہ ضروری ہے‘‘(صفحہ:16) ۔ مشکل جو آج ہے وہ تب بھی تھی۔بھارت درمیانہ داری کے لئے تیار نہیں تھا۔ سندھ طاس پہ منجملہ کنٹرول کے سبب بھارت کو کوئی پریشانی بھی لا حق نہیں تھی البتہ بھارت کیلئے آبی تقسیم کے عالمی معاہدوں سے گریزمشکل سے مشکل ترہوتا جا رہا تھا۔بھارت نے عین کشمیر مسلے کی مانند دو طرفہ مذکرات پہ زور دینا شروع کیا اور ایسے میں ہیگ کی عالمی عدالت کے قانونی حل سے بھی گریز کیا گیا۔ کے دورے کے وقت صورت حال یہی تھی۔
عالمی بنک کے صدر اوجین آر بلیک نے بھارتی حساسیت کا توڑ ایسے کیا کہ درمیانہ دار کے بجائے مصالحت کارکارول نبھایا۔اِس کے علاوہ اُنہوں نے تاریخی و سیاسی زاویے کو مد نظر رکھے بغیر عملی طریقہ کار اپنانے کی بات کی۔ڈیوڈ لینتھال کی ایک تجویز پہ اُنہوں نے کام کرنا شروع کیا جس کی رو سے یہ مسلہ مہندسین( انجینرنگ : Engineering)کے پیشے سے متعلق قرار پایاچونکہ اِس پیشے کی خصوصیت یہ ہے کہ اُن کی زباںپورے عالم میں ایک ہی ہوتی ہے لہٰذا طرفین کے مہندسین سے ہی مسلہ نبھانے کا کام لیا جانے کی سفارش ہوئی (نرنجن گلہاٹی۔سندھ طاس معاہدہ۔عالمی درمیانہ داری کی ایک کوشش صفحہ:110 )البتہ بات بنی نہیں اور 1954 ء کے آتے آتے بات چیت تقریباََ ٹوٹ گئی۔آخر کار آوجین آر بلیک نے مشرقی و مغربی دریاؤں کی تقسیم کاری کا فارمولہ پیش کیا جو کہ بھارت کی عین خواہش کے مطابق تھا جس پر پاکستان نے اعتراض کیا کیونکہ مشرقی دریاؤں کے منجملہ بھارتی کنٹرول سے پاکستانی پنجاب کے نصف علاقوں کی آبیاری متاثر ہوتی تھی اُس کا تدراک ایسے کیا گیا کہ نہری پانی کا ایک وسیع سلسلہ قائم کیا گیاجس سے آبیاری ممکن ہوئی۔اِس نہری سلسلے کے لئے بھارت نے سرمایہ دینے سے انکار کیا چناچہ عالمی بنک نے سرمایہ فراہم کیا اور پیسہ امریکی و برطانوی حکومت نے دیا۔انجام کار مشرقی دریاؤں پر بھارت کو مکمل کنٹرول حاصل ہوا اور مغربی دریاؤں پر پاکستان کا حق مانا گیا اور سندھ طاس معاہدہ 19 ستمبر 1960ء میں بمقام کراچی مابین ہند و پاکستان طے پایا البتہ دریائی بہاؤ کی حد تک [Run of the River] پر بھارتی انتظامیہ کشمیر کا حق محفوظ رہا۔انڈس واٹر کمیشن قائم ہوا جس کے بھارتی و پاکستانی کمشنر کمیشن کے ممبراں کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کی نظارت پہ مامور ہوئے۔ایسے میں بھارتی انتظامیہ جموں و کشمیر کے آبی بہاؤپر بنائے جانے والے کسی بھی پن بجلی پروجکٹ پر پاکستان کے اعتراض کی صورت میں اگر افہام و تفہیم سے سلجھاؤ کی صورت نہ نکلے تو باہمی سمجھوتے سے بے طرف مصالحت کاروں کی ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے جس کا فیصلہ فریقین ہند و پاک سرکاروں کو ماننا پڑتا ہے۔
عالمی معاہدوں کے مطابق کہا جا سکتا ہے کہ پانی حاصل کرنا پاکستان کا حق بنتا ہے لیکن انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ سند ھ طاس کے مشرقی و مغربی دریاؤںکی تقسیم مابین ہند و پاکستان عادلانہ ہو ۔ یقینناََ یہ عادلانہ نہیں ہے کہ بھارت مشرقی دریاؤں کا پانی اپنے لئے محفوظ رکھے اور مغربی دریاؤں کا پانی بحق پاکستان محفوظ رہے چونکہ اِس سے ریاست جموں و کشمیر کو پانی روک کے ڈیم بنانے کی اجازت نہیں ہے تاکہ یہ ایسے موسم میں بجلی پیدا کرنے کے کام آئے جب پانی کا بہاؤ کم ہوتا ہے ۔ یہ صورت حال ریاست جموں و کشمیر میں سرمائی مہینوں میں پیش آتی ہے جبکہ لوگوں کو شدید کٹوتی کا سامنا ہوتا ہے ۔سندھ طاس معاہدے میں بھارت کو پنجاب کا خیال تو رہا لہذا مشرقی دریا بحق بھارت محفوظ رہے جبکہ سودا کشمیر کے دریاؤں کا کیا گیا۔ مناسب یہی رہتا کہ مشرقی اور مغربی دونوں ہی دریائی سلسلوں کا پانی بر حسب حاجت بھارت و پاکستان کے مابین تقسیم ہوتا ۔ ظاہر ہے ایسے میں ریاست جموں و کشمیر کو اُس خسارے کا سامنا نہ رہتاجو کہ1960ء سے آج تک در پیش ہے۔
ریاست جموں و کشمیر میں خسارے کا ذکر پہلے پہلے2011ء میں ہوا جب ریاستی اقتصادی کمیشن نے اِس جانب اشارہ کیا بلکہ یہ کہا گیا کہ ریاست کی ترقی میں جو اقتصادی مشکلات در پیش ہیں اُس کا ایک وجہ یہ خسارہ ہے جو ریاست کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ ریاستی اقتصادی کمیشن جس کے سربراہ محمود الرحمن تھے یہ سفارش کی کہ بھارت اور پاکستان دونوں ہی سے یہ خسارہ پوارا کرنے کے لئے کہا جائے لیکن چونکہ ریاست پاکستان سے براہ راست مطالبہ نہیں کر سکتی لہذا اِس ضمن میں بھارت سرکار سے رابطہ کیا جائے۔ اِن سفارشات کے بعد ریاست میں اگر چہ اِس ضمن میں اقدامات کئے گئے لیکن یہ بارآور ثابت نہیں ہوئے جس کا ذکر پہلے ہی کیا جا چکاہے۔کولمبومیں مقیم پانی سے متعلق ایک عالمی تنظیم[International Water Management Institute (IWMI)] نے سر رتن ٹاٹا ٹرسٹ ممبئی کی شراکت سے ایک رپورٹ ترتیب دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 1960ء سے آج تک سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے ریاست کو سالانہ 6,500کروڑ کا نقصان ہوتا ہے۔رپورٹ میں یہ ذکر بھی آیا ہے کہ پانی سے بجلی کی تولید اور زراعت کا شعبہ بھی متاثر ہوا ہے۔1960ء سے 2018ء تک کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ رقم کثیر بن جاتی ہے لیکن کوئی پرساںحال نہیں۔
Feedback on: [email protected]