غور طلب
صوفیہ بانو ،ہوڑہ
روزِ اوّل ہی سے جب دو انسان آپس میں ملاقات کرتے ہیں تو اپنی ملاقات کیلئے کچھ الفاظ اور طریقے مقرر کرلیتے ہیں۔ ہر دین وملت کے علیحدہ علیحدہ الفاظ ہیں، زمانہ جاہلیت میں اہل عرب حیات اللہ (اللہ تجھے زندہ رکھے) کہتے تھے، دوسرے مذاہب والے بھی اپنے طریقے سے سلام کرتے اور اس کا جواب دیتے تھے۔ مگر جو طریقہ اسلام نے اپنایا ہے وہ بہت موزوںاور بہ معنی ہے کیونکہ حیات اللہ (اللہ تجھے زندہ رکھے) میںصرف زندگی کی دعا ہے مگر السلام علیکم میں دنیا وآخرت کی سلامتی کی دعا ہے اور ویسے بھی بغیر سلامتی کے زندگی وبال ہوتی ہے، زندگی تو وہی اچھی ہوتی ہے جو سلامتی کے ساتھ ہو۔ لہٰذا زندگی کی دعا سے سلامتی کی دعا بہتر ہے۔
اللہ کے رسول ؐ نے اپنی امت کو ارشاد فرما یاکہ جب تم دو مسلمان آپس میں ملو یا ملاقات کرو تو سب سے پہلے السلام علیکم کہو پھر کلام کیا کرو کیونکہ سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے او ر اللہ نے اس نام کو زمین والوں کے لئے رکھ دیا ہے، اس لئے اسے خوب پھیلائو۔ السلام علیکم کے معنی ہوتے ہیں کہ خدا تم پر ہر قسم کی سلامتی نازل کرے اور تمہیں خیر وعافیت سے نوازے، یعنی اس سلام کے معنی میں جان مال ، گھر بار ، اہلیان ، دین وایمان سب آجاتا ہے، یعنی کے جو میرے علم اور جو میرے علم میں نہیں ہے، اس کا بھی سلامت رہنا ہے، اب اس سے بڑھ کر الفاظ کیا ہوسکتا ہے۔ سلام مسلمانوں کے دلوں سے عداوت مٹانے اور محبت پیدا کرنے کیلئے اکسیر کا درجہ رکھتا ہے، سلام کو اتنی فضیلت حاصل ہے کہ سلام میں پہل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے قریب تر ہونے اور تکبر سے دور ہونے کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ حدیث مبارکہ میں اس کی اتنی تاکید کی گئی ہے کہ اگر دو مسلمانوں کے درمیان درخت یا دیوار یا پتھر کی آڑ آجائے اور دوبارہ آپس میں ملے تو پھر بھی سلام کریں۔ جو مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو سلام نہ کرے تو اس سے بڑا بخل اور کوئی نہیں ہے اور بعض لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو کبھی کبھار کسی کے سلام کا جواب دینے میں اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ لہٰذا ایسا نہ کریں ، سلام کرنا سنت ہے اور جواب دینا فرض ہے۔ سلام کرنے کیلئے ضروری ہے کہ صرف اسی کو سلام نہ کرے جسے پہچانتا ہو بلکہ ہر مسلمان کو سلام کرے، چاہے اسے پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔
سلام کاجواب فوراً دینا واجب ہے، اگر بلا عذر تاخیر کی تو گنہگار ہوگااور یہ گناہ جواب دینے سے ختم نہیں ہوگا بلکہ توبہ کرنی ہوگی۔ بعض لوگ سلام کے جواب میں ہاتھ یا سر سے اشارہ کرتے ہیں بلکہ بعض لوگ آنکھ کے اشارے سے جواب دیتے ہیں، یہ سلام کا جواب نہیں ہوا، انہیں چاہئے کہ زبان سے سلام کا جواب دیں۔ اکثر جگہ یہ طریقہ دیکھا گیا ہے کہ چھوٹا جب بڑے کو سلام کرتا ہے تو وہ جواب میں کہتے ہیں’’جیتے رہو‘‘ یہ سلام کا جواب نہیں بلکہ یہ جواب تو زمانہ جاہلیت میں کفار دیا کرتے تھے۔ اسلام میں السلام علیکم کے جواب میں وعلیکم السلام کہنے کے لئے کہا ہے۔ اہل جنت بھی آپس میں خود ایک دوسرے کا استقبال انہیں کلمات سے کرینگے، جنت میں مومنوں کیلئے چاروں طرف سے سلام ہی سلام کی صدا ہوگی، لہٰذا آپ بھی زبان سے السلام علیکم کہہ کر سلام کریں۔ سلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہایت پاکیزہ اور برکت والی تحفہ ہے اسے ہر جگہ عام کریں ، اگر مجلس میں سلام کریں تو کسی کا نام لیکر نہ کریںاور سلام کے جواب میں کچھ اچھے الفاظ کا اضافہ کریں۔ مثلاً اگر کوئی کہے السلام علیکم تو جواب میں وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ کہیں، اور اگر کوئی کہے السلام علیکم ورحمتہ اللہ تو جواب میں وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہیںاور اگر کوئی کہے کہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ تو جواب میں وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ مغفرتہ کہیںکیونکہ السلام علیکم کرنے میں دس نیکیاں، السلام علیکم ورحمتہ کہنے میں بیس نیکیاں اور السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ کہنے میں تیس نیکیا ںملیں گی(ترمذی شریف)۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اور جب تمہیں کوئی کسی لفظ سے سلام کرے تو اس سے بہتر لفظ میں جواب دو یا وہی لفظ کہہ دو، بے شک اللہ ہر چیز پر حساب لینے والا ہے۔
الغرض اسلام میں اپنے متعقدین کو اخلاق اور باہم محبت کا درس دیتا ہے، اس لئے اسلام نے ایسے طریقے رائج کئے ہیں جن سے آپس میں محبت بڑھتی ہے، ان میں سے ایک طریقہ سلام کا ہے۔ اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا تم جنت میں نہیں جائوگے جب تک مومن نہ بن جائواور مومن نہیں بن سکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہاری اس کام پر رہبری نہ کروں کہ جب تم وہ کرلو تو اس سے محبت کرنے لگو، اپنے درمیان سلام کو پھیلائو۔