سری نگر// جموں و کشمیر میں گرچہ سال2021 کے دوران بھی سیاسی سرگرمیوں پر ٖغیر یقینی صورتحال ہی سایہ فگن رہی تاہم بی جے پی نے اپنے کشمیر مشن کی آبیاری کے لئے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔
یونین ٹریٹری میں بڑے پیمانے کے سیاسی جلسے جلوسوں کے اہتمام سے قطع نظر سیاسی لیڈروں کی دلبدلی کا ماحول خاصا گرم رہا اور یہ سال رخصت ہو ہی رہا تھا کہ جموں وکشمیر حد بندی کمیشن نے یونین ٹریٹری کی نئی اسمبلی سیٹوں کی رپورٹ جاری کر دی جو سیاسی گلیاروں میں ایک موضوع بحث بن گیا۔
اس رپورٹ کے مطابق جموں کو چھ نئی اسمبلی سیٹیں دی گئی ہیں جبکہ کشمیر کو ایک ہی سیٹ دی گئی ہے۔
کشمیر کی جملہ سیاسی جماعتیں اس رپورٹ سے ناراض نظر آ رہی ہیں بلکہ پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن نئے سال کے آغاز پر اس رپورٹ خلاف احتجاج درج کرے گی اور جموں وکشمیر اپنی پارٹی نے تو 29 دسمبر کو ہی اس کے خلاف خاموش احتجاج درج کیا۔
دریں اثنا یونین ٹریٹری انتطامیہ نے اسی ہفتے اعلیٰ رئیل اسٹیٹ کمپنیوں کے ساتھ کئی ایم او یوز پر دستخط کئے جس کو یہاں کے سیاسی لیڈران باہر کے لوگوں کو جموں و کشمیر میں زمین خریدنے کے لئے ایک راستے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
سال 2021 کے دوران سیاسی لیڈروں نے حکومت کے ان فیصلوں کے خلاف اپنی سرگرمیاں تیز کرنے کے لئے جموں و کشمیر میں میٹنگوں اور ریلیوں کا اہتمام کیا تاہم کشمیر کے مقابلے میں جموں ان سرگرمیوں کا مرکز رہا۔
پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کا یہ الزام رہا ہے کہ ان کی پارٹی کو جلسے کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے بلکہ انہیں کسی بی جگہ جانے سے روکنے کے لئے خانہ نظر بند رکھا جاتا ہے۔
سال2021 کے اوائل میں ہی پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد غنی لون نے پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن (پی اے جی ڈی) کے ترجمان کے عہدے سے مستعفی ہو کر جہاں الائنس کے ارکین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا وہیں سیاسی تجزیہ کاروں کو بحث کا ایک گرم موضوع فراہم کیا۔
نیشنل کانفرنس کے دو سینئر لیڈروں دیوندر سنگھ رانا اور سرجیت سنگھ سلاتھیا نے ماہ اکتوبر میں پارٹی سے مستعفی ہوکر اپنی جماعت کے لیڈروں کو ورطہ حیرت میں ہی نہیں ڈالا بلکہ ان کی دل آزاری کا باعث بھی بن گئے جس کا اظہار پارٹی کے نائب صدر عمر عبداللہ نے اپنئے ایک انٹرویو کے دوران کیا۔
اس سال کے دوران بھی پی ڈی پی سے سینئر لیڈروں کی قطع تعلقی کا سلسلہ جاری رہا اور نظام الدین بٹ، جاوید مصطفی میر اور بشارت بخاری جیسے لیڈران نے پارٹی چھوڑ دی۔
کانگریس کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے قومی سیاست کے بجائے مقامی سیاست کی طرف رجوع کرکے جموں و کشمیر کے کئی علاقوں میں لوگوں کے ساتھ میٹنگوں کا اہتمام کیا۔
اسی دوران غلام احمد میر کو مدت مدید کے بعد جموں و کشمر پردیش کانگریس کمیٹی کی صدارت کا عہدہ کھونا پڑا اور ان کی جگہ پر سینئر کانگریس لیڈر رمن بھلہ کو قائم مقام صدر بنا دیا گیا۔
سال2021 کے دوران مرکزی حکومت نے پانچ اگست 2019 کے فیصلوں کے بعد پہلی بار ماہ جون میں جموں وکشمیر کے سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے ساتھ دلی میں ایک میٹنگ کی جس کی صدارت وزیر اعظم نریندر مودی نے کی۔
اس میٹنگ کے دوران وزیر اعظم نے دلی کی دوری اور دلی سے دوری کو مٹاںے کا وعدہ بھی کیا۔
کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سابق سربراہ پروفیسر نور احمد بابا کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر کے سیاسی لیڈروں کی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد لوگوں میں امید کی ایک کرن جاگزین ہوگئی تھی۔
انہوں نے کہا: ’اس میٹنگ سے ایک امید سی پیدا ہوئی تھی لیکن اس کے بعد زمینی سطح پر کچھ بھی نہیں کیا گیا‘۔
ان کا کہنا تھا: ’ریاستی درجہ بھی بحال نہیں کیا گیا اور جمہوری عمل ابھی بھی بحال نہیں ہوا ہے اور انتخابات کے انعقاد کا دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آ رہا ہے‘۔
موصوف پروفیسر نے کہا کہ حد بندی کمشین کی رپورٹ سے شکوک شبہات ہی پیدا ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر میں کافی وقت سے اب جہوری سرگرمیاں معطل ہیں اور کئی اہم فیصلے جن کے سٹیٹ پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے، لئے گئے ہیں جن سے لوگوں میں غیر یقینی صوتحال پیدا ہوگئی ہے۔
سال 2021 کے یکم ستمبر کو سینئر علاحد گی پسند لیڈر سید علی گیلانی کی موت حریت کانفرنس کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگئی۔
سید علی گیلانی حیدر پورہ سری نگر میں واقع اپنی رہائش گاہ پر92 سال کی عمر میں انتقال کر گئے اور انہیں حیدر پورہ میں ہی ایک قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
حریت کانفرنس (ع) کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق اپنی رہائئش گاہ واقع نگین میں مسلسل خانہ نظر بند ہیں۔