درخشاں پر وین ، علی گڑھ
زیر ِ تبصرہ کتاب’ زعفران زا ر‘علاقۂ ودربھ کے ظرافت نگاروں کی شعری و نثری تخلیقات کا ایک انتخاب ہے ۔اس کتاب کے ذریعے پہلی مرتبہ یہ احساس دلانے کی کو شش کی گئی ہے کہ اردو ادب میں ظرافت کی آ بیاری کرنے والوں کا ایک قافلہ اس دیار میں بھی موجود ہے ورنہ اب تک دہلی ،ممبئی ،لاہور اور حیدر آ باد طنز و مزاح کے مشہور مراکز رہے ہیں ۔ ’زعفران زار‘ کے مرتب محمد اسد اللہ ، اردو کے ایک معروف انشائیہ نگار اور طنز و مزاح نگار ہیں ۔ وہ خود بھی اس کارواں میں شامل ہیں ۔ انشائیہ نگاری میں تخلیقی و تحقیقی سطح پران کا کام متعددکتابوں کی شکل میں منظرِ عام پر آ چکا ہے ۔ اس کے علاوہ محمد اسد اللہ نے مراٹھی ادب کی نمائندہ مزاحیہ تخلیقات کو بھی تراجم کے ذریعے اردو میں منتقل کیا،اس سلسلے میں ان کی دو کتابیں زیورِ طبع سے آ راستہ ہوچکی ہیں ۔
زعفران زار میںان قلم کاروں کو مختلف عنوانات کے ساتھ متعار ف کروایا گیا ہے ۔ نثر نگاروں کے تخلیقات سے پہلے ان کے تعارفی نوٹس بھی ہیں جن میں ان کے تخلیقی سفر اور ادبی اسلوب و موضوعات پر تبصرے موجود ہیں ۔ باب اول میں’ وجود ِ زن ‘کے عنوان تلے شفیقہ فرحت ،بانو سرتاج ،ثریا صولت حسین اور سلمیٰ نسرین کے مضامین ہیں اور ’مردِ میداں ‘کے تحت ان مزاح نگاروں کی تخلیقات ہیں جن کی کوئی کتاب اس ضمن میں شائع ہوچکی ہو۔ ان میں ڈاکٹر صفدر ،شکیل اعجاز، شیخ رحمام اکولوی ، محمد اسدا للہ ، بابو آ رکے، مرزا رفیق شاکر ، انصاری اصغر جمیل ،غلام صوفی حیدری ، حیدر بیابانی ،محمد طارق ،ایس ایس علی ، رام پر کاش سکسینہ ،رحمت اللہ خاں مالوی ،سعید احمد خاںاور ڈاکٹر جاوید کامٹوی ہیں ۔
باب دوم میں ودربھ کے وہ ادیب ہیں جنھوں نے منہ کا مزہ بدلنے کے لیے کبھی کبھار اس صنف میں طبع آ زمائی کی ہے اور تا ہنوز ان کی کوئی کتاب طنز و مزاح کی شائع نہیں ہوئی ،انھیں ’ یارانِ بے پیالہ ‘کے نام سے یاد کیا گیا ہے ۔ یہ ترکیب اور عنوان بذاتِ خود ظرافت کی عمدہ مثال ہے ۔ جہاں کسی صنف میں طبع آ زمائی کر کے کتابیں شائع کر نے والے قلم کاروں کی پذیرائی اور ان کے ہنر کی داد دینا لازمی ہے وہیں رسائل و اخبارات میں اس میدا ن میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے والوں کا اعتراف بھی ضروری ہے اور یہی مستحسن کوشش اس کتاب میں بھی نظر آ تی ہے ۔ ودربھ کے اس قسم کے قلم کاروں میں چند اہم نام یہ ہیں ۔ ڈاکٹرسمیع بن سعد ،محمد خورشید نادر،شکیل شاہجہاں ،ڈاکٹر اشفاق احمد ،ڈاکٹر اظہر حیات ،رنق جمال ،شاید رشید ،عمر حنیف ،یحییٰ جمیل ،ریحان کوثر ،ڈاکٹر توحید الحق ،ڈاکٹر کلیم ضیا،خان حسنین عاقب ،محمد رفیع مجاہد ، محمد ایوب ، سید اسد تابش شمیم افسر اور الیاس احمد ہیں ۔ اس کے بعد باب سوم میں ’ فردوس گوش ‘ کے تحت ودربھ کے ۱۹ شعرا کا مزاحیہ کلام ہے ۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں مشہور مزاح نگار شکیل اعجاز نے لکھا ہے کہ کسی کا دل خوش کرنا ،اس کو ہنسنے مسکرانے کے مواقع فراہم کرنا ،بھی ایک نیکی مانی جاتی ہے ۔یہ کتاب اس قسم کی نیکیوں سے بھری پڑی ہے ۔
محمد اسد اللہ نے اس کتاب کے مقدمے میں ودربھ کا محلِ وقوع اور تاریخی حقائق کے علاوہ وہاں طنز و مزاح کے ارتقاء پر روشنی ڈالنے کے علاوہ اس کتاب میں شامل قلمکاروں کے فن اور طنز و مزاح سے متعلق ضروری معلومات پیش کی ہے ۔ وہ طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے مجموعوں کے متعلق لکھتے ہیں :
’نثر میں اس قبیل کی کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ ودربھ میں ۱۹۸۱ سے شروع ہوا تھا۔ اب جب کہ اس کاغذی کھلکھلاہٹ کو چالیس برس ہونے کو آ ئے برسوں کی اس چلہ کشی کے دوران تقریبا ً ڈیڑھ درجن نثر نگار اور لگ بھگ اتنے ہی شاعر اپنی بغلوں میں ہنستی مسکراتی کتابیں دابے میدان ِ ظرافت میں قارئین کو گد گدارہے ہیں ۔ ودربھ میں ۱۹۷۰ کی دہائی میں کئی نوجوان لکھنے والے سامنے آ ئے جنھوں نے اس میدان میں قدم رکھا اور ظرافت نگاری ایک وبا کی صورت اختیار کرگئی ۔ ‘
ا ن مزاح نگاروں میں سے اکثر ایسے ہیں جنھوں نے اردو ادب میں اپنی پہچان بنائی ، طنز و مزاح کو اپنی طبیعت کی شگفتگی سے فیضیاب کیا اور عصری زندگی کی مضحکہ خیز تصویروں کو ادب کے ایوان میں مطالعے کے قابل بنایا۔ اس کتاب میں شامل مزاحیہ تحریروں میں سے چند قلم کاروں کے اسلوب اور موضوعات کا اندازہ ان اقتباسات سے لگایا جاسکتا ہے۔
معروف مزاح نگار شفیقہ فرحت اپنے مضمون بعد’ سبک دوشی میں ‘ریٹائرمنٹ کی فرصت پانے والوں کے متعلق لکھتی ہیں :
پنشن اور مختلف فنڈ س کے ساتھ ایک چین کی بنسی ملتی ہے ۔جسے وہ بجاتے رہتے ہیں ۔اب اس ’چین ‘ کی بنسی والی کہاوت سے یہ راز نہیں کھلتا کہ بنسی ملک چین سے بر آ مد کی جاتی ہے یا بذاتِ خود چین نامی کسی دھات یا لکڑی کی ہوتی ہے ۔ ‘
ڈاکٹر صفدر نے اپنے مضمون میں ایسے ادیبوں پر طنز کیا ہے جو کتابوںپر کتابیں شائع کئے جاتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں : کتب الدین نے قطب مینار بنایا تھا ہمارے دوست ’ کتب مینا ر‘ بنارہے ہیں ۔ہر سال چھ مہینے میں ان کی دو ایک کتابیں چھپ ہی جاتی ہیں ۔ بقول خود وہ صبح سے شام تک قلم گھسیٹتے رہتے ہیں ۔
شکیل اعجاز اپنے مضمون لیٹر پیڈ میں لکھتے ہیں : تاریخ نویسوں نے قدیم شہنشاہوں کے بارے میں یہ افواہ پھیلارکھی ہے کہ انھیں عمارتیں بنانے کا شوق تھایقین نہ آ ئے تو لا ل قلعہ ، اشوک کی لاٹ ،تاج محل ، قطب مینار اور دوسری عمارتیں جاکر دیکھ لیجئے وہاں جا بجا آ پ کو تحریریں دکھائی دیں گی ۔‘
محمد اسد اللہ اپنے مزاحیہ مضمون مہمانوں کا سیلاب میںلکھتے ہیں ۔’اس دنیا میں انسان بذاتِ خود ایک بن بلایا مہمان ہے اور اس بات پر اڑا ہوا ہے کہ جب تک اس کا دانہ پانی اس دنیا میں موجود ہے وہ یہاں سے ٹلنے والا نہیں خواہ اس کو دھکے مار کرہی کیوں نہ نکالاجائے ۔چنانچہ اب آ دمی تلاش ِ روزگار میں لوکل ٹرین اور بس کے دھکے کھاتا ہے اور بے تکان جیتا ہے ۔ ‘
کتاب کے آ خر میں ودربھ کے معروف اور نئے شعرا کا شگفتہ کلام ہے ۔ نثر نگاروں کی طرح ان شعرا کے کلام کے ساتھ بھی تعارفی نوٹ لگانے کا اہتمام کیا گیا ہوتا تو کتاب کی افادیت میں اضافہ ہوجاتا۔ درج ذیل شاعروں کی دو دومنظومات یا ہزلیں شامل کی گئی ہیں ۔
حافظ محمد ولایت اللہ ،عبدالصمد جاوید( علامہ گنبد ) ،فیاض افسوس ، ڈاکٹر شرف الدین ساحل ،ناظم انصاری ،جملوا انصاری ،سرفراز کاتب ،فنی ایوت محلی ، لقب عمران ،فوجی جلگانوی، غنی اعجاز ،رفیق شاکر ،انور احمد قریشی ،منھ پھٹ ناگپوری ،مسعود جھانپڑ ، مفلس قارونی ،سرخاب ،سوامی کرشنانند سوختہ ،زین العابدین نایاب ، حیدر بیابانی ،متین اچلپوری ، فصیح اللہ نقیب،جھنجھٹ اکولوی ، ریاض الدین کامل ،محمد توحید الحق،نادر بالاپوری ،انیس احمد شوق ،وحید شیخ ،التمش شمس،عقیل ساحر ،بشیر بشر ،عمران علی خا ن ،جمیل انصاری ،شاداب انجم ۔
ان شعرا ء کے کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دیار کے شاعروں نے ظرافت کے میدان میں بھی اپنی زندہ دلی کا ثبوت پیش کیا ہے اور طنز و مزاح کو ادبی جامے میں پیش کر کے سماجی سیاسی اور ادبی حلقوں کے ان گوشوں کو اپنے کلام میں نمایاں کیا جن میں بے اعتدالیاں موجود ہیں اور عام روش سے ہٹ کر کچھ الگ انداز نمایاں ہیں ۔