شوکت حمیدشاہ
رتنی پورہ پلوامہ ضلع کا ایک معروف گاؤں ہے۔یہ تین قصبوں اونتی پورہ، پلوامہ اور پانپور سے یکساں فاصلے پر واقع ہے۔ گرمائی راجدھانی سرینگر سے 27کلو میٹر دورسرینگر سے پلوامہ سڑک پر پاہو گائوں سے مشرق کی جانب مڑنے والی سڑک سے 2کلو میٹر کے اندر واقع رتنی پورہ نام دوالفاظ کا مرکب ہے: “رتن” جس کے معنی ہیرے یا زیور ہیںاور “پور” کے معنی جگہ یامقام ہے۔کاشْر انسائیکلو پیڈیا جلد1میں اس گاؤں کا تذکرہ اس طرح آیا ہے کہ رتن دیوی وہار کو راجہ جے سمہا کی بیوی نے1128-55ء تعمیر کیا تھا۔اسی نسبت سے اس کا نام رتن پور پڑ گیا۔ روایت ہے کہ رتن دیوی نے ادھر وہار اور عمارتیں تعمیر کی تھیں۔تاریخی کتاب راج ترنگی میں کلہن نے لکھا ہے کہ رتن پورہ کا مٹھ اہم جگہ رہی، جہاں بہت ڈیوڑھیاں تھیں۔1982میں آثارقدیمہ کی کھدائی کے دوران یہاںبہت پرانی اینٹیں برآمد ہوئیں۔گائوں میں یہ قول زبان زد ہر خاص و عام ہے کہ ایک بار شیخ العالم حضرت شیخ نور الدین نورانیؒ کا گائوں سے گذر ہوا توآپؒ کو بتایا گیا کہ اس کا نام ’رتن پور ‘ ہے تو آپؒ نے فرمایا’یم چھ رت لوک‘ (یہاں اچھے لوگ ہیں )۔
پلوامہ ضلع میں مرکزیت کے حامل رتنی پورہ کی آبادی تقریباً 10000 نفوس پر مشتمل ہے جو گائوں پاہو، ناڑو، گلہ بگ اور کنجی پورہ گاؤں کی حدود کو چھوتے ہیں۔نالہ لار کے کنارے آباد رتنی پورہ کو اس پر بنے4پْل ملاتے ہیں جب کہ شمال مغرب کی طرف نالہ رومشی نامی ایک ندی پاہو گائوں سے آتی ہے۔جنوب مغرب میں قوئل سے آنے والی ’برین کول ‘ نامی ندی بہتی ہے اور یہ تینوں ندیاں گائوں کے جنوبی مضافات میں دریا ے جہلم سے جا ملتی ہیں۔دھان کے کھیتوں اور بھیدزاروں اور سفیدے کے درختوں سے گھرے ہوئے رتنی پورہ کو ضلع پلوامہ میں تعلیمی طور ترقی یافتہ گائوں کہلانے کا اعزار حاصل ہے۔ماضی بعید سے ہی ادھر تعلیم کا رحجان رہا ہے۔ تقریباً تمام نوجوان تعلیم حاصل کررہے ہیں اور یہاںکوئی ایسا شخص تلاش کرنا مشکل ہوگا جو سکول ،کالج یا یونیورسٹی نہ جاتا ہو۔ رتنی پورہ میں اوسط خواندگی کی شرح زیادہ ہے، جو کہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق جموں اور کشمیر کیلئے 67.16فیصد کے مقابلے میں 71.44فیصد ہے۔ یہاں مردوں کی شرح خواندگی 82.46فیصد جب کہ خواتین کی شرح خواندگی 60.42فیصد ہے۔ اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے والے رہائشیوںکی تعداد بہت زیادہ ہے۔نیزیہاں ہر تیسرے گھر میں ایک پی ایچ ڈی کی ڈگری یافتہ ضرورملتا ہے۔ کہتے ہیں 1990 کی دہائی کے اوائل تک جب وادی میں تعلیم کی کمی تھی، گاؤں کی نصف سے زیادہ آبادی سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جاتی تھی۔ اعداد و شمارسے پتہ چلتا ہے کہ گائوں میں 95 فیصد نوجوان پڑھ لکھ چکے ہیں یا اس وقت اپنی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جب کہ یہ بھی اس مردم خیز گائوں کی خصوصیت ہے کہ یہاں کے60 فیصد بزرگ پڑھے لکھے طبقہ پر مشتمل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سرکاری ملازمین کی تعداد بھی مقابلتاً زیادہ ہے جو آج بھی تقریباً ہر کسی محکمے میں تعینات ہیں۔ان میںکئی ایک اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائض ہیں ۔رتنی پورہ میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی سرکاری ملازمت سے جڑی ہے۔گائوں میں چونکہ معزز اندرابی اور میر خاندانوں کا اثر و رسوخ زیادہ ہے، اس وجہ سے یہاں گاؤں میں تعلیم وتدریس کو ہمیشہ سے ہی اولین ترجیح ملتی رہی۔گائوں میں اْس وقت بھی سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے تھے جب وادی میں ان کی تعداد کم تھی۔ یہاں 1960کی دہائی میں گورئمنٹ بائز ہائی سکول قائم ہوا جو اب ہائر سکینڈری کے درجے پر ہے۔اس کے علاوہ یہاں ایک گورئمنٹ ہائی سکول ،ایک مڈل سکول اور 3نجی تعلیمی ادارے ہیں۔علم وآگہی سے لگاؤ کے باعث رتنی پورہ کوضلع میں تعلیم یافتہ گاؤں کہلانے کا اعزاز حاصل ہے۔
رتنی پورہ کو عالموں،شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔ماضی سے ہی رتنی پور کو پیروں کا گاؤں بھی کہاجاتاتھا۔ روحانیت کے دلدادہ لوگ وادی کے اطراف و اکناف سے شریعت ،طریقت ، معرفت کی تربیت پانے کے واسطے گاؤں کا رخ کرتے رہے ہیں ۔یہاں کے اندارابی اور میر خاندانوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی گہری چھاپ چھوڑی ہے اور اس وقت بھی ان خاندانوں کے لوگ نہ صرف اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائض ہیں بلکہ متعدد قومی اور بین الاقوامی سطح پر کئی اداروں میں کام کررہے ہیں۔شمس الدین غمگین مقبول شاعر گذرے ہیں جب کہ اعجاز احمداندرابی نے کشمیری زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا ہے۔محی الدین نواز کی شاعری جہاں کشمیر میں مشہور ہوئی، وہیں محی الدین خوش باش ،قطب الدین ماہر ،شریف الدین پرواز جیسی ادبی شخصیتیں بھی اسی جگہ پروان چڑھیں۔ماہر تعلیم اور صحافی مرحوم غلام رسول غیور یہیں پر شعر وشاعری کے کارواں میں پلے بڑھے۔یہ وادی کشمیر کے چند ممتاز شاعروں اور ماہرین تعلیم کا مسکن ہے۔یہاں کے نامور اساتذہ میں کاشی ناتھ کول ،پیارے لال واگزاری ،ماسٹر غلام احمد میر شامل ہیں جنہیں فارسی ،انگریزی اورتاریخ کے مضامین پر کافی دسترس تھی اورپورے جنوبی کشمیر میں ان کا چرچا ہوا کرتا تھا۔
رتنی پورہ میں سید صادق اندرابی کا مزار بھی موجود ہے جہاں ہر سال ذوو وشوق سے عرس منایا جاتا ہے۔گائوں میں ایک مرکزی جامع مسجدسمیت5جامع اور28 مساجد ہیں جب کہ ایک شیومندر بھی واقع ہے۔ گائوں میں بستی کے باہر ایک ٹیلہ بھی موجود ہے۔بتایا جاتا ہے یہاں برن کا ایک بڑا درخت صدیوں سے موجود ہے۔گائوں کے اس حصے کو زینہ ڈب کہاجاتا ہے۔اس حصے میں سفیدہ کے درخت ہی درخت ہیں اور وہیں ایک بڑا پتھر بھی ہے جس پر ایک آدمی نماز ادا کرسکتا ہے۔سینہ بہ سینہ روایت ہے کہ ماضی میں ایک دفعہ سیلاب آیا تھا اور ایک بزرگ پتھر پر تیرتے ہوئے یہاں پہنچے اور سردی سے بچنے کیلئے لکڑی جلائی اور لکڑی کے ایک ٹکڑے کو وہیں زمین میں رکھا اور تب سے یہاں یہ بڑا درخت موجود ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گائوں کے اس حصے میں جب لوگ زرعی کام میں مصروف ہوتے ہیں تو وہ حْقہ پینے کیلئے آگ جلاتے ہیں، تاہم شام کو گھر واپس آنے پر حقے کا پانی اور کانگڑی کا آگ وہیں پھینک دیتے ہیں۔
رتنی پورہ میں تیس ہندو (کشمیری پنڈت) گھرانے بھی آباد تھے جو اپنے مسلمان پڑوسیوں کے ساتھ کامل ہم آہنگی کے ساتھ رہتے تھے لیکن وادی کشمیر کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے انہیں 1990 میں اپنے گھر بار چھوڑنا پڑے۔یہ گاؤں تمام اچھے ماہرین تعلیم، ڈاکٹروں، دانشوروں، شاعروں اور ادبی شخصیات کے لئے ایک گلدستہ کے طور آباد ہے۔مرحوم جلیل اندرابی (ایڈوکیٹ ) کے والد غلام قادر اندرابی نے شاعر مشرق علامہ اقبال کی شاعری کا کشمیری ترجمہ کیا ہے اور مرحوم غلام قادر اندرابی گائوں کشمیر کے ایسے پہلے شخص ہیں جو ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر ریٹائر ہوئے۔
کشمیر میں جب ریڈیو کشمیر سے نشریات کا آغاز ہوا تھا تو بیگم شیخ محمد عبداللہ نے قرآن شریف کی تلاوت کی جب کہ رتنی پورہ کے جلال الدین اعجازؔنے نعت شریف پڑھی ،جس کے ساتھ ہی نشریات شروع ہوئیں۔شریف الدین پرواز ؔبھی اسی گائوں کے ہیں جو مزاحیہ شاعر تھے اور ان کا ’’عفْو پر و ردگارا ‘ لوک گیت کافی مشہور ہے۔براڈ کاسٹر غلام نبی رتنی پوری، جوکہ بعد میں راجیہ سبھا ممبر بھی بنے ،بھی اسی گائوں میں جنے ہیں جب کہ آل انڈیاریڈیو سرینگر کے مقبول عام پروگرام’شہربین ‘ کے ناموربراڈ کاسٹر محمد حسین ظفر اور ان کے بھائی آفتاب احمد میر ،جوکہ اس وقت جموں و کشمیر پولیس میں ایس ایس پی کے عہدے پر تعینات ہیں،بھی اسی گائوں سے تعلق رکھتے ہیں۔محکمہ اطلاعات کے ایک سینئر آفیسر اور گلوکارسید شکیل شان بھی اسی گائوں کی پیداوار ہیں۔ انجینئر سید شوکت غیور نے بھی اسی گائوں میں جنم لیا ہے۔یہاں کے سینکڑوں افرادمیڈیکل ، انجینئرنگ اور دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ سرکاری عہدوں پر ہیں اور یہاں کے لوگ صرف اعلیٰ تعلیم کے حصول تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ بستی نے کئی اچھے شاعر ،اساتذہ،وکلاء ، سیاستدان اور صحافی بھی پیدا کئے ہیں۔
گاؤں میں بہت کم باغبانی ہے اور زیادہ تر دھان کے کھیت اور غیر پھل دار درخت ہیں۔ سرکاری ملازمتیں اور زراعت کے ساتھ ساتھ غیر پھل دار درختوں کی بہتات یہاں کے باشندوں کے لئے سرمایہ کا بنیادی ذریعہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ گائوں کے ایک طرف کے حصے کو ATMکہا جاتا ہے ،کیونکہ اس طرف بے شمارسفیدہ کے درخت ہیں۔رتنی پور ایک زرعی گاؤں تھا جہاں لوگ رہنے کے لیے کھیتی باڑی کرتے تھے۔ بتدریج لوگوں میں تعلیم پھیلی اور آج گاؤں میں شرح خواندگی 100 فیصد ہے، ہر گھر میں پوسٹ گریجویٹ طالب علم موجود ہے۔گاؤں کے کچھ سکالرغیر ملکی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ محقق کے طور پر کام کر رہے ہیں۔یہ گاؤں کشمیر میں تعلیمی گاؤں کے طور پر مشہور ہے کیونکہ اس نے شروع سے ہی ایسے اساتذہ پیدا کیے ہیں جنہوں نے پوری وادی کے سکولوں میں پڑھایا ہے۔ رتنی پورہ کو 2004 میں حکومت نے ایک ماڈل گاؤں قرار دیا تھا جس کی وجہ سے گاؤں میں تعمیر و ترقی ہوئی جبکہ اس سال گاؤں ایک ریل ہالٹ سٹیشن کا قائم ہوا۔گائوں میں جموں و کشمیر بنک کی ایک شاخ اورکئی سرکاری محکموں کے دفاتربھی واقع ہیں۔
مضمون نگار کشمیر عظمیٰ کے سینئر ایڈیٹر اور محفل بہار ادب شاہورہ پلوامہ کے اعزازی رکن ہیں۔
رابطہ۔[email protected]
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاًاپنی ہیں اور انہیںکسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)