پرویز مانوس
رات کے گیارہ بج چکے تھے اور گھڑی کی تینوں سوئیاں اپنا سفر طے کرنے میں مصروف تھیں، باہر تاریکی کی تہہ گہری سے گہری ہوتی جارہی تھی، سائمن منہ میں سگار دبائے اضطرابی کیفیت میں کاریڈورمیں ٹہلتا ہوا گہری سوچوں میں آج کے حادثے کے تار ملانے میں محو تھا،اُس کی آنکھوں کے سامنے بار بار جُولی کا چہرہ گھوم جاتا تو وہ دل مسوس کر رہ جاتا، اُس کی بیوی شرشٹا کاریڈور میں رکھے ہوئے بینچ پر بیٹھ کر اپنی کوتاہیوں پر اشک سوئی کرکے دل کا بوجھ ہلکا کررہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ اُس نے اپنی بیٹیوں پر نظر کیوں نہیں رکھی-
سائمن ایک بیروکریٹ تھا اور اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔
نام، عہدہ، دولت، ہر شے اُس کے پاس تھی۔ اُس کی بیوی شرشٹا ایک نفیس اور سلجھی ہوئی خاتون تھی، جو اپنے گھر کو خوشی اور سکون کا گہوارہ بنانے کی کوشش میں لگی رہتی تھی۔ اُن کی چار اولادیں تھیں: تین بیٹیاں اور ایک بیٹا۔
منجلی بیٹی جولی ابھی آٹھویں جماعت میں تھی، چمکتی آنکھوں اور شوخ مسکراہٹ والی بچی، جو ہر روز اسکول جاتی تو پورے گھر میں رونق بھر جاتی۔
اور سائمن کا سرکاری ڈرائیور پیٹر اُسے روز اسکول چھوڑنے اور لانے جاتا ہے۔
گھر کا نظم و نسق ایک وفادار بوڑھا نوکر رگو سنبھالتا تھا، جو بچپن سے سائمن کے ساتھ تھا۔ جب رگو کی کمر جھکنے لگی اور طبیعت خراب رہنے لگی تو اُس نے اپنے بیٹے ببلو کو سائمن کے ہاں نوکری پر رکھوا دیا۔ ببلو نرم لہجے کا، معصوم چہرے والا، مگر تھوڑا کم گو نوجوان تھا۔ وہ صبح سے شام تک گھر کے کام کاج میں مصروف رہتا اور سب سے مؤدب انداز میں بات کرتا۔جولی کو ٹیوشن ٹیچر کے پاس لے جانے اور لانے کی ذمہ داری اُسی کی تھی-
گھر میں ہر طرف خوشیاں رقص کرتی تھیں، قہقہے گونجتے تھے، سب کچھ ایک ترتیب میں چل رہا تھا — جب تک کہ اُس منحوس دن نے سب کچھ بدل نہ دیا –
ایک روز جولی اسکول سے لوٹی تو اُس کا چہرہ زرد تھا۔چہرے پر تھکن کے آثار نمایا تھے – شرشٹا نے پوچھا،
’’کیا ہوا جولی؟ طبیعت تو ٹھیک ہے بیٹا؟‘‘
جولی نے دھیمی آواز میں کہا، ’’بس ممّا، شاید دھوپ لگ گئی ہے۔‘‘
دوسرے دن بھی اُس کی حالت میں کچھ سُدھار نہ ہوا تو سائمن نے اپنے فیملی ڈاکٹر ابرہم کو بُلا لیا ۔ ابتدائی معائنے کے بعد ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ کرانےکو کہا ،،ٹیسٹ دیکھنے کے بعد ڈاکٹر نے سائمن اور شرشٹا کو اکیلے میں بات کرنے کے کہا، تو دونوں کے چہروں پر تجسس چھا گیا۔
ڈاکٹر کے الفاظ جیسے بجلی بن کر گرے:
’’میری بات آپ کو ہضم کرنا مشکل ہوگا… مگر حقیقت یہ ہے کہ جولی امید سے ہے۔‘‘
کیا؟؟؟ شرشٹا کا بدن لرز اٹھا۔ سائمن کے ہاتھ سے فائل چھوٹ گئی۔
’’کیا؟ یہ… یہ ممکن ہی نہیں!‘‘اُس نے پھٹی آنکھوں سے ڈاکٹر کو دیکھا۔
ڈاکٹر نے گہری سانس لی، “میں نے تمام رپورٹس کو اچھی طرح پڑھ لیا ہے، بالکل واضح ہے۔”
رونق بھرا گھر جیسے لمحوں میں ویران ہوگیا۔ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی – شرشٹا رو رو کر بے حال تھی، جولی کمرے میں بند تھی اور سائمن کے ذہن میں صرف ایک سوال گردش کر رہا تھا:
آخر یہ سب کس نے کیا؟
سائمن نے جولی کے کمرے کا دروازہ کھولا۔ وہ سہم کر بستر پر چادر لپیٹے بیٹھی تھی۔
’’بیٹی…‘‘ سائمن نے نرم لہجے میں کہا، “ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے، بس یہ بتاؤ کہ تمہارے ساتھ یہ غلیظ حرکت کس نے کی؟”
جولی نے نظریں جھکائیں، ہونٹ کپکپا رہے تھے۔
لیکن اُس کے لب جیسے کسی مجبوری نے سی رکھے تھے
’’بیٹی یہ ہماری عزت کا سوال ہے ،ایک بار بس ایک بار اُس دردندے کا نام بتادو ” شرشٹا چیخ پڑی۔ “آخر وہ درندہ کون ہے جس نے تمہاری معصومیت لوٹی؟‘‘
جولی چپ رہی، صرف رونا اُس کا جواب تھا۔
وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی ” اگر اُس نے مجرم کا نام بتا دیا تو وہ اُس کی بنا ئی ہوئی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردے گا،، نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! اُس نے زور دار آواز میں چیخا تو شرشٹا ڈر گئی کہ کہیں وہ کچھ کر نہ بیٹھے اور خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گئی-
سائمن کے دماغ میں ہلچل مچی ہوئی تھی ۔ اُس کے ذہن میں طرح طرح کے خیال جنم لینے لگے-
“وہ ٹیوشن ٹیچر جہاں جولی کم از کم تین گھنٹے اُس کے پاس رہتی تھی، نہیں نہیں وہ سنجیدہ شخص ہے، سائمن نے اپنے سر کو جھٹک دیا –
پھر اچانک اُسے ببلو یاد آیا-
ببلو………!!! ہاں ببلو جو پچھلے کچھ دنوں سے گاؤں گیا ہوا تھا۔ اُس نے کہا تھا، “ابّا بیمار ہیں، دیکھنے جانا ہے۔” مگر تب سے اُس کا فون بند آرہا تھا۔وہ جوان بھی ہے ضرور اُسی نے میری نافہم بیٹی کو بہکایا ہے،
سائمن کے شک نے یقین کی شکل اختیار کر لی۔ “ہاں، وہی ہوگا! اسی لئے جولی کچھ نہیں بول رہی۔”
جب بھی ہم لوگ کہیں باہر جاتے تھے تو وہی جولی کو ٹیوشن پر ساتھ جاتا تھا –
موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اُس نے اپنی دو بیٹیوں اوربیٹے کو ننھال بھیجنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ ان حالات سےبے خبر رہیں –
لیکن اب اس مصیبت سے کسی طرح پیچھا چھڑانا تھا، اُس نے ڈاکٹر سے بات کی تو ڈاکٹر نےکہا،، سائمن صاحب ! فکر نہ کریں ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا ہے کیس ابتدائی مرحلے میں ہے، ابارشن کی قطعی ضرورت نہیں ہے ، یہ معاملہ دوائی سے ہی حل ہوجائے گا بس ایک ہفتہ تک احتیاط برتنے کی ضرورت ہے بات باہر نہ نکلے،
ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب، اب ہماری عزت آپ کے ساتھ میں ہے، سائمن نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا تو ڈاکٹر نے آگے بڑھ کر اُس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا، ڈونٹ وری، آئی ایم ہیر. ۔۔!
سوموار کی صبح جب ڈرائیور گاڑی لے کر آیا تو سائمن نے کہا،
’’ دیکھو مجھے کچھ ضروری کام نپٹانے ہیں میں ایک ہفتہ کی لیو پر ہوں، تم گاڑی واپس دفتر لے جاؤ۔‘‘
ڈرائیور نے پوچھا، ’’صاحب، وہ جولی بی بی کو اسکول کون چھوڑے گا ؟‘‘
شرشٹا نے لپک کر کہا ’’سارے بچے چند دنوں کے لئے ننھیال گئےہوئے ہیں‘‘
ڈرائیور نے اثبات میں سر ہلایا، مگر وہ حیران تھا کہ یہ سب کچھ اچانک کیسے ہوگیا، کل تک تو ایسا کوئی پروگرام نہیں تھا ؟ پھر وہ خاموشی سے گیٹ سے باہر نکل گیا۔
سائمن پورا دن کمرے میں بند رہا۔ کبھی کھڑکی سے باہر دیکھتا، کبھی جولی کے بند دروازے کو گھورتا۔
ڈاکٹر جولی کو دوا دے چکا تھا اور دوا اثر بھی کررہی تھی اور سائمن بے بسی میں سوچ رہا تھا
’’میں ایک باعزت آفیسر ہوں، سماج کو کیا منہ دکھاؤں گا؟‘‘
’’میری بیٹی کے دامن پر داغ لگا دیا اُس کمینے نے!‘‘
ابھی وہ اسی سوچ میں گم تھا کہ اُس کے موبائل کی بیل بج اُٹھی…،، ہیلو ۔۔۔۔۔جی جی بول رہا ہوں
ادھر کی آواز سُن کر وہ ششدر رہ گیا ،،
کوئی بات نہیں سائمن صاحب زندگی میں ایسے مرحلے بھی آتے ہیں لیکن ہمت نہیں ہارنی ہے ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے، خیر ڈرائیور کے ہاتھ ایک ضروری فائل بھیج رہا ہوں دستخط کرکے بھیج دیں ۔۔۔!
جی بہتر ۔۔۔۔۔،، اُس کے بڑے افسر تک یہ خبر کیسے پہنچی؟
اب کیا ہوگا یہ راز کیسے باہر نکلا، کس نے نکالا کہ میری بیٹی…..!!
غصہ اُس کے رگ و پے میں اتر چکا تھا۔
اس سے بہتر ہے میں خود کشی ہی کرلوں…!
اب یہی میری عزت پر لگے ہوئے دھبے کو مٹا سکتی ہے ۔وہ تیز تیز قدموں چلتا ہوا کمرے میں پہنچا اور آگے بڑ ھ کر اپنی الماری سے بارہ بور کی رائفل نکالی پھر اُس میں ایک راوند لوڈ کرکے اپنے گلے پر نالی رکھ کر فائر کرنے والا ہی والا تھا کہ تبھی ببلو گھر میں داخل ہوا،،
صاحب جی، معاف کرنا، باپو کی حالت بہت خراب تھی، اسی لیے…‘‘
اس کے جملے پورے بھی نہ ہوئے تھے کہ سائمن نے بندوق اُس پر تان دی۔
’’ کمینے، حرام خور ،نمک حرام! تُو نے میری عزت پر ایسا دھبہ لگایا ہے جو اب صرف تیرے خون سے دھل سکتا ہے!‘‘
ببلو سہم گیا، ’’صاحب! آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں نے کیا کیا ہے؟‘‘
’’ احسان فراموش ۔۔۔۔! ابھی بھی انکار کرتا ہے؟ جولی… میری بیٹی…!‘‘ سائمن کی آواز بھرا گئی۔
’’صاحب، میں تو گاؤں میں تھا، قسم کھا کر کہتا ہوں!‘‘
مگر سائمن اب عقل کے دائرے سے باہر جا چکا تھا۔ اُس نے فائر کر دیا۔
گولی کی آواز سے کوٹھی گونج اُٹھی- ببلو کے سینے سے خون پھوٹ نکلا، وہ دھڑام سے فرش پر گر کر تڑپنے لگا۔
گولی کی آواز سُن کر شرشٹا چیخ پڑی۔ ’’سائمن! تم نے کیا کر دیا!‘‘
دروازہ کھلا تو جولی دوڑتی ہوئی آئی۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر گھبراہٹ تھی۔
’’پاپا!‘‘ یہ آپ نے کیا کردیا،، یہ تو بے قصور تھا، یہ بے قصور تھا-
بیٹی تمہاری خاموشی ہی ببلو کی موت کا سبب بنی، اب تو بتادو وہ بدبخت کون ہے؟
پاپا ۔۔۔! وہ …..وہ….. ابھی وہ کچھ بولنے ہی والی تھی کہ
اتنے میں ڈرائیور ہاتھ میں ایک فائل لےکر گیٹ سے داخل ہوا، اُسے دیکھ کر جولی کی زبان گنگ ہوگئی-
جولی کے چہرے پر اڑتی ہوئی ہوائیاں دیکھ کر سائمن کے ہاتھ سے بندوق چھوٹ گئی اور ببلو کا خون اُس کے پیروں کو چھو رہا تھا—
���
115-آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛ 9622937142