گزشتہ چند دہائیوں سے دہشت گردی کا سوال عالمی سیاست کا اہم موضوع ِ بحث بنتا جا رہا ہے۔ نیوزی لینڈ کے جگرسوزالمیہ نے (جس میں دومساجد کے اندر 50؍ نمازی مارے گئے )اس بحث کو مزید دنیائے ا نسانیت کے سامنے ایک اہم سوال کی صورت میں اُجاگر کیا ۔ یہ سانحہ قریب ایک ماہ پہلے پلوامہ کے حادثے میں مارے گئے 40 ؍ سی آر پی اہل کاروں کی ہلاکت کے بعد پیش آیا ۔ ساری دنیا میں پلوامہ چرچے میں آ گیا۔ اس وقت تک دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد انہ حملے میں امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہوائی جہاز مارنے کا سر فہرست ہے ۔اس میں ہزاروں لوگ بیک وقت مارے گئے اور دو فلک بوس ٹاور بالکل تباہ ہو کر ملبے کا ڈھیر ہوگئے۔اس واقعے کو عام زبان میں 9/11کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ 11ستمبر 2002کو پیش آیا ہے۔ دوسرا بڑا دہشت گردانہ حملہ ممبئی کے مشہور تاج ہوٹل پر ہوا تھا جس میں دنیا بھر سے آئے ہوئے دو سو کے قریب لوگ مارے گئے تھے۔ ایک اور بڑا دردناک دہشت گرد حملہ 2012ء میں پشاور کے ایک فوجی سکول پر ہوا جس میں 220؍ معصوم سکولی بچے مارے گئے تھے۔ اس دہشت گردانہ میں ملوث انسانیت کے دشمن حملہ آوروں نے اپنی کاروائی کے فوراً بعد خود کو بارود سے اُڑا لیا تھا۔ آگے اس واقعے کے بعد ایک خودکش دہشت گرد حملہ واگہ بارڈر کی پریڈ کے وقت پاکستانی سائڈ میں ہوا جس میں 80؍ لوگ جانیں گنوا بیٹھے۔ان کے علاوہ اور بھی کئی چھوٹی بڑی دہشت گردی کارروائیاں ہوئیں جن میں دلی سے لاہو رجانے والی سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین پر حملہ میں 68 مسافر مارے گئے ۔ مرنے والوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔جہارکھنڈ میں 2010 میں مرکزی ریزرو پولیس کے 70؍ سپاہی ایک ایسے ہی حملے میں مارے گئے تھے۔ ان تمام دلدوز واقعات کے پیچھے جو کوئی بھی تھا ، بہرحال ان سے لوگ دُکھی ہوئے،متاثرین کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی ہیں، بغض وعداوت اور شکوک وشبہات کی آگ بھڑک اٹھی۔ ایسے مواقع پرکچھ دن تو اُداسی اور سوگواری کا ماحول بنارہتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ یہ اندوہ ناک خبریں پرانی ہو جاتی ہیں۔ آج کی تاریخ میں ساری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف آواز بلند ہو رہی ہے۔ یو این او میں بھی اس کی مخالفت تقریریں ہوتی ہیں ، قرارادادیں منظور ہوتی ہیں ،فیصلے لئے جاتے ہیں، پھر بھی دنیا کے بہت سارے ملک اس وبائی بیماری سے متاثر ہیں اور مصیبت کے مارے ہیں۔
بھارت کا کئی دہائیوں سے ایک ہی نقطے پر زور دے رہا ہے کہ پاکستان اپنی زمین کو بھارت کے خلاف دہشت گرد وارداتوں کیلئے استعمال ہونے سے روک دے۔ نئی دلی کا موقف ہے کہ دہشت گردوں کو اسلام کی شہ اور مدد حاصل ہے ۔ اکثر وبیشتر دہشت پسندانہ کاروائیوں میں پاکستان کے شہری پکڑے بھی جاتے ہیں۔ اُدھر پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ تو خود دہشت گردی سے متاثرہ مصیبت زدہ ملک ہے۔ گزشتہ بیس سال کے دوران پاکستان میں دہشت گردوں کے ہاتھ سے عام لوگ اور حفاظتی دستوں کے ستر ہزار انسان ابدی نیند سوگئے جو بھارت میں ہوئیں ایسی ہلاکتوں سے بہت زیادہ ہے۔ غور طلب ہے کہ پلوامہ سانحہ سے پہلے جب بھی کبھی جموں کشمیر میں کوئی ایسی واردات ہوتی تو پاکستان کے لیڈر اس پر دُکھ کا کوئی اظہار نہیں کرتے لیکن اس بار وزیراعظم عمران خان نے پلوامہ پر دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے بھی اس طرح کی بہت ہلاکتیں دیکھی ہیں، اس لئے میں جانتا ہوں کہ ہلاکتوں کا دُکھ کیسا ہوتا ہے اور متاثرہ گھر والوں کی کیا حالت ہو تی ہے۔ عمران خان کی یہ بھلی بات سمجھ داری پر مبنی ہے اور اس طرح کی گفتنی سے دوطرفہ تلخیوں کو چھوڑ کر حالات کو اچھا رُخ دیا جا سکتا لیکن حالات کو ایسا رُخ دینا اور عمران خان کے سٹینڈ کا صحیح فائدہ اٹھالینا مودی سرکار کے بس کی بات نہیں تھی۔ قبل ا زیںتین ریاستوں میں شکست فاش اور ملک میں عوامی مسائل کو لے کر لوگوں میںبڑھ رہی بے چینی کو سائیڈ لائین کر نے میں پلوامہ سانحہ مودی کے لئے ایک تحفہ ثابت ہوا اور ا نہوں نے اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ اُنہوںنے کسانوں اور نوجوانوں کی نا راضگی کو جنگی جنون میں ڈھالنے کی کوشش کی کیونکہ بھاجپا صرف ایسے ہی کاموں میں ماہر ہے۔ پلوامہ نے اس کو نفرت کی ہوا پھیلانے کا سنہری موقع دیا۔ اس حکومت نے پہلے سرجیکل سٹرائیک کا شور وشغب کیا اور پھر پلوامہ کا بدلہ پاکستان سے لینے کے لئے ’’ گھر کے اندر مارنے‘‘ کا ڈائیلاگ دہرایا۔ یہ چیزیںمودی سرکار کی دلیری کا ثبوت نہیں بلکہ اس بات کا اظہار ہے کہ یہ پارٹی اپنے سیاسی مفاد کے لئے ملک کی جنتا پر لڑائی تھوپنے سے بھی گریز نہیں کرے گی، چاہے لڑنے والے دوجوہری ہمسائے ہوں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ موت کا دُکھ اور صدمہ کتنا شدید اور ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ پلوامہ میں اپنی ڈیوٹی پر جا رہے مرکزی ریزرو پولیس کے40 ؍جوانوں کی سڑک پر بکھری ہوئی لاشوں کا منظر ہر باہوش انسان کو دُکھ اور غم سے نڈھال کرتا تھا۔خودکش بمبار لڑکے نے یہ حرکت جس کسی نیت سے کی وہ اپنی جگہ مگر خود اس کی موت بھی اس کے گھروالوں کے لئے رنج والم کا پیغام تھی۔دنیا نے تصاویرکی زبانی غم سے پژمردہ اس کے ماں باپ کو اسی طرح روتے ہوئے دیکھا جیسے سی آر ایف جوانوں کے گھروالے سینہ کوبی کر تے دیکھے ۔ قتل وخون کی واردات چاہے ورلڈ ٹریڈ ٹاور نیویارک میں وقوع پذیر ہو، تاج ممبئی میں ہو، سمجھوتہ ایکسپریس میں ہو، پشاورآرمی اسکول میں ہو،چھتیس گڑھ میں ہو، پلوامہ میں ہو یا نیوزی لینڈ میں، اس سے انسانیت دُکھی ہوتی ہے ، آدمیت لہو روتی ہے ،محبت زخمی ہوتی ہے، اتحاد اور بھائی چارے کا شیش محل ٹوٹ جاتا ہے ۔ ایسے سانحات میں کسی کی جیت نہیں ہوتی بلکہ سب کی ہار مقدر ہوجاتی ہے، مگراس سے بڑا دُکھ یہ ہے کہ انسانی برادری ان دُکھوں سے خلاصی کی راہ تلاشنے میں ناکام ہے کیونکہ یہ اس کے لئے سنجیدہ بھی نہیں اور بس غصے ، جھنجلا ہٹ اور گھبراہٹ کے عالم میں بدلے کی بھاؤنا میں بہک کر جوابی حملوں، پھانسیوں، گولیوں ، فضائی جھڑپوں کی د ھمکیاں سنی جاتی ہیں۔یہ دہشت گردی کی نفسیات ختم کرنے کے طریقے نہیں ،یہ تو خود دہشت گردیاں ہیں جو دہشت گردوں کی اصل منشاء ہوتی ہے۔ پاکستان میں موت کی سزاؤں پر روک لگی ہوئی تھی لیکن پشاور میں سکولی بچوں کے اجتماعی قتل کی سنگین واردات کے بعدیہ ممانعت ختم کر دی گئی۔ یوں ردعمل میںایک سخت قدم اٹھا لیا گیا۔ غصہ واجب تھا اور سخت قدم کی بھی ضرورت تھی لیکن سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے وحشیانہ کارروائی کے بعد خود کو بارُود سے اڑا یا اُن کے لئے موت کی سزا کے کیا معنی ؟ دوم اس کے بعد پاکستان نے قریب ایک ہزار مجرموں کو پھانسیاں دیں تو کیا ان سے دہشت گردی رُک گئی؟ آج سارے پاکستان میں ریلوے اسٹیشنوں ، بس اڈوں اور پبلک مقامات پر دہشت گردی سے چوکنا رہنے کے سرکاری اشتہار لگے ہوئے ہیں، لوگوں کو نہ صرف چوکس رہنے کی تلقین کی جاتی ہے بلکہ عوام سے قانون نافذ کرنے والوں سے تعاون دینے کی فہمائش کی ہوتی ہے لیکناس کے موت کا ننگا ناچ بد ستور جاری ہے۔
نیوزی لینڈ کا المیہ دہشت ناک بھی دُکھ دائیک بھی ہے۔ اس یورپی ملک نے کبھی ایسا سوچا ہی نہیں تھا۔ وہاں کی پولیس اکثر بندوقوں پستولوں کے بغیر ہی عوام کو احساسِ تحفظ دینے کے لئے گشت کیاکرتی ہے، وہاںصدر اور وزیروں کے لئے Z plus سیکورٹی جیسی چیزکسی نے سنی بھی نہیں تھی۔نیوزی لینڈ کے لوگوں کے ساتھ بہت بہت بُرا ہوا لیکن انہوں نے ناقابل برداشت دُکھ کو دُکھ کی طرح ہی لیا،اسے پسپائی یا انتقام گیری کافسانہ نہیں بنایا، شہیدوں سے ہمدردی ضرورکی لیکن ان کی قربانیوں کے گیت نغمے نہیں گائے ، بدلہ لینے اور سخت سزاؤں کی دھمکیاں نہیں دیں ۔ غرض صحیح انسانی طریقے سے اپنا غم اور سوگ منایا۔ ماتم کے ماحول میں ہی اللہ کے پیارے ہو ؤں کو قبروں میں دفنایا، توپیں چلا کر کوئی سلامی نہیں دی گئی، نہ اس کی ضرورت ہی تھی۔ وہاں کی خاتون وزیراعظم نے ماتمی ماحول میںکالے کپڑے پہن کر سوگواروں کے گھر گھر گئیں، ہاتھ جوڑکرمعافی مانگ لی کہ میں تمہیں تحفظ نہ دے سکی، ان کے سوگ میں شریک وسہیم ہوئیں۔مر نے والے کے ا حترام میں کئی ملکوں کے پرچم نیوزی لینڈ کے علاوہ جھکے رہے۔ہاں، نیوزی لینڈ کی سرکار خون کھول دینے والے المیہ کی پوری تفتیش کرے گی۔ ظالم قاتل نے کوئی 70 صفحہ پر مشتمل اپنا منشور واردات سے قبل میڈیا پر ڈالا ، یہ منشور اس کے تعصب ، نفرت، وحشت کی بولتی دستاویز ہے اور اس کا پورا مطالعہ کر نے سے ہم اس دہشت گرد کی نفسیات کا تجزیہ کرسکتے ہی۔ بتایا جاتا ہے کہ پلوامہ کے خودکش حملہ آور نے بھی میڈیا پردس بیس منٹ قبل اپنے خیالات رکھے تھے۔ ان کا بھی گہرامطالعہ کیا جانا چاہیے ۔ اتنا جاننا ہی کافی نہیں ہے کہ اس کاکون کون ذمہ دارہے بلکہ یہ معلوم کرنا بھی ضروری ہے کہ ایسے اقدام کے پیچھے سوچ کیا تھی جس کا توڑ سمجھ داری سے کرنا وقت کی پکار ہے۔
بلاشبہ دہشت گردی انسانی سماج کے لئے ایک بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے۔ اپنے کام میں مگن بیٹھے لوگوں کو بلاکسی قصور اور گناہ کے جان سے مار دینا، اپنے راستہ جا رہے لوگوں کو قتل کر دینا،الگ خیالات رکھنے والے کو ختم کر دینا، کسی خاص ملازمت میں ہونے کاانتقام لینا ، کسی خاص مذہبی گروہ میں جنم لینے پر جان لینا، پورے سماج میں اپنی دھاک بٹھاکر خوف، بے چینی اور دہشت پھیلا دینا، یہ سب بہت دردناک چیزیں ہیں۔ جنگ و جدل، مار کٹائی اور بد امنی کے ماحول میں سماجی زندگی ہمیشہ تہس نہس ہو جاتی ہے، اس کے اوپر بچوں کی تعلیم، صحت عامہ ، خوشی کے مواقع اور غم کی گھڑیاں کوئی دوسرا رنگ پکڑ تی ہیں۔ سمجھئے کہ زندگی کی نبضیں رُک سی جاتی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ جنگ اور جارحیت کی فضا میں لوگوں کے لئے مبنی بر انصاف سماج کی تعمیر ناممکن ہوجاتی ہے اور جمہوری تبدیلیوں کی جدو جہد میں رکاوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں، کس عقل اور منطق کی رُوسے مرنے مارنے کو لبریشن یاانقلابی جدو جہد کا نام دیا جا سکتا ہے؟ یہ صرف مار دھاڑ ہوتی ہے، ہنسا ہوتی ہے، بد امنی ہوتی ہے، تشددہوتا ہے، بس۔اس کے ساتھ ہی یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر 21ویں صدی کے تہذیب یافتہ سماج میںبھی زیر حراست بندے پر پولیس کی جانب سے تھرڈ ڈگری ٹارچر ہو، مار پیٹ ہو، اس کے پیاروں کی تذلیل ہو تو کیاسماج میں پلوامہ کا خود کش بمبار پیدا ہونا کوئی حیرت کی بات ہے۔ پھر وہ جنم پاکر دہشت گردی کا جو اب خود کش بمبار بھی بن سکتا ہے۔سماج سے ہر طرح کی ہنسا یا تشدد کا خاتمہ ممکن ہے مگر چاس کے لئے اونچی سوچ ، بڑا کلیجہ اور مثبت ارادے لازم وملزوم ہیں ۔ ’’سرجیکل سٹرائیک‘ ‘اور پھر ’’اندر جا کربھون ڈالوں گا‘‘ جیسی ڈائیلاگ بازی سے دہشت گردی رُکی نہ ایسی وارداتوں میں کوئی کمی آئی یا فرق پڑا کیونکہ دہشت گردی کو جوابی دہشت گردی سے روکا ہی نہیں جا سکتا۔ عالمی سطح پر دہشت گردی کا مارچ کیسے روکا جائے ، وہ عالمی لیڈر اور بین ا لاقوامی ادارے بہتر طور طے کرسکتے ہیں لیکن ہمارے یہاں ہنسا اور جنگ و جدل کی جگہ صلح صفائی اور معاملہ فہمی کاماحول کیسے برپا کیا جائے،اس پرنئی دلی اور اسلام آباد کو چار وناچارسوچنا ہوگا اور آگے بڑھنا ہوگا ۔ ہمارے لئے سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ کس طرح ایٹامک انرجی سے لیس دوقریبی پڑوسیوں بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک ایسا مضبوط رابطہ قائم کیا جائے جو موسموں کی گردش سے ماوراء ہو۔یہ صرف دو حکومتوںکا کام نہیں بلکہ عام لوگ بھی افہام وتفہیم اور میل ملاپ کی اس عبادت کا ایک جزوِ لاینفک بن سکتے ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اشتعال پھیلانے والی شرپسند ٹی وی چنلوں پرمخالفانہ پروپگنڈا بند کیا جائے ، کرتاپور صاحب راہداری کی طرح گیان پیٹھ مندر وغیرہ کے لئے لوگوں پر بندشیں ہٹادی جائیں ، آر پار بہتر رابطے بنائے رکھنے کے لئے آنے جانے والی بسیں کبھی بند نہ کی جائیں بلکہ اس آمدورفت میں مزیداضافہ کیا جانا چاہیے۔ ٹوریسٹ ویزے بآسانی دونوں ملکوں کے شہریوں کودئے جائیں، دونوں جانب تھوک تجارت بھی ہو اور پرچون خریدوفروخت بھی ہو، کھیل کود اور ثقافتی روابط کو بحال کیا جائے ، جنگی سازوسامان کی خرید اری پر دونوں طرف بندش عائدکی جائے، سرحدوں پر گولہ باری بہت سختی سے بند کی جائے، واگہہ بارڈر کی پریڈ ہمیشہ جاری رکھی جائے، البتہ ا س میں زورزور سے زمین پر پیر مارنے اور جوتے دکھانے کا پاگل پن بند کیا جائے، ہر مسٔلے کا حل بات چیت سے کرنے کاحلف اٹھا لیاجائے۔اگر سچے دل سے آر پار دہشت گردی کو روکنا مطلوب ہے تو امن اور دوستی واحد راستہ ہے، یہی ایک کارگرطریقہ ٔ عمل اور نقش ِراہ ہے۔ اس کو آج کر لو چاہے کل مگر اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
…………..
رابطہ ۔9876375903