دریائوں کا عالمی دن | کشمیر کی تاریخ کا آئینہ دار اور کشمیریت کی پہچان۔۔۔ دریائے جہلم گھروں کے فضلہ، گندگی، کوڑا کرکٹ،پالی تھین اور کچرا کا مسکن،جسکا وجود خطرے میں ہے

بلال فرقانی
سرینگر//دریائوں کے عالمی دن پر وادی میں ثقافتی و اقتصادی اہمیت کے حامل دریائے جہلم کی زبوں حالی ایک تشویشناک داستان کی گواہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پالی تھین، کچرا اور پائپوں سے دریا میں جانے والے فضلہ سے آبی جانور خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ستمبر کی آخری اتوار دریائوں کے عالمی دن کے طور پر منائی جاتی ہے۔اسکا مقصد دریائوں کی حفاظت اور انہیں تحفظ دینے کیلئے لوگوں میں آگاہی فراہم کرنا ہوتا ہے۔ امسال یہ دن’’حیاتیاتی تنوع کے لیے دریائوں کی اہمیت‘‘ کے موضوع پر منایا جاتا ہے۔وادی میں واحد دریائے جہلم کو نہ صرف پن بجلی فراہم کرنے اور دیگر اقتصادی و معاشی معاملات میں اہمیت حاصل ہے بلکہ دریائے جہلم یہاں کے تمدن،ثقافت اور تہذیب کے علاوہ مذہبی اقدار کے منظر نامے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔دریائے جہلم، جو ویری ناگ سے نکلتا ہے اور جنوبی ایشیاء کی میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل ولر میں داخل ہونے سے پہلے سرینگر سے گزرتا ہے،پن بجلی، آبپاشی اور پینے کے پانی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ عام لوگوں کا ماننا ہے کہ کشمیر میں متواتر حکومتوں کی نظر اندازی کی وجہ سے آلودگی اور بے لگام تجاوزات کی وجہ سے دریا کا وجود خطرے میں ہے۔ دریائے جہلم کے کناروں پر پالی تھین کے ڈھیر، کچرے اور پائپوں سے نکاسی آب دریائے جہلم میں گرنا ایک عام سی بات ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت دریا میں آلودگی پر قابو پانے کے لیے موثر اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہے، جسے کشمیر میںنکاسی آب کے سب سے بڑے اخراج کے راستے کے طور پر جانا جاتا ہے۔عوامی طور پر یہ شکایت بھی رہی ہے کہ حکومت اور ماہرین ماحولیات کی توجہ ڈل جھیل کے تحفظ پر جاری رہنے کے باعث جہلم کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران اگر چہ جھیل ڈل کے گردو نواح میں سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ(ایس ٹی پی) تعمیر کئے گئے تاہم دریائے جہلم میں گھروں،ہوٹلوں،کارخانوں اور دیگر جگہوں سے نکلنے والے پانی کو صاف کرنے کیلئے ’ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹوں‘ کی تعمیر نہ ہوسکی۔وادی کشمیر کے لوگ جہلم کو آلودہ کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔پوری وادی کے گندے پانی کو جہلم جذب کرتا آیا ہے جس کی وجہ سے اسکے کنارے سکڑرہے ہیں، اسکے تحفظ کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے، اسکا وجود آہستہ آہستہ ختم ہورہا ہے، اسکی گہرائی کافی حد تک کم ہوگئی ہے اور معمولی بارشوں سے اسکا پانی اوپر آتا ہے جس سے سیلابی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔1983 سے 2016 تک پانی کے معیار میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لیے ماہر ماحولیات ڈاکٹر شکیل رومشو ،کی شائع کردہ تحقیق میں کہا گیا ہے’’ دریا میں نائٹریٹ نائٹروجن میں اضافہ ہوا ہے‘‘، جو پانی کے اندر پائے جانے والے جانوروں کے خاتمے کا باعث ہے۔