گلفام بارجی
اسلامی تواریخ میں ہمیں کئی ایسی خواتین کی مثالیں ملتی ہیں جنہوں نے اسلام کی سربلندی کے لئے کام کیا۔ اسی طرح حق و باطل کے معرکہ کربلا میں اپنی اولادوں کی قربانیاں پیش کی جانے والی خواتین جن حضرت رباب ؑ، حضرت ام لیلیٰ ؑاور حضرت ام کلثوم ؑ شامل ہیں ،نے دین اسلام کی بقاء کے لئے اپنے لخت جگروں کو قربان کردیا لیکن ان میں جو مقام و حیثیت شیر دل خاتون حضرت ذینب ؑ کوحاصل ہے ،اس کا اعتراف غیر مسلم مورخین بھی کرتے ہیں۔ حضرت ذینب ؑحضرت محمد مصطفی ؐ کی نواسی، خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا ؑ اور شیر خدا حضرت علی مرتضیٰ ؑکی صاحبزادی تھیں۔ آپ کا نام خود خدا کے رسول ؑ نے ذینب ؑتجویز کیاجس کے معنی ہیں خوش منظر درخت۔ حضرت ذینب ؑکی تربیت عین اسلامی اصولوں کے مطابق ہوئی تھی اور کیوں نہ ہوتی تربیت میں جو خدا کے رسول حضرت محمد مصطفی ؐ، شیر خدا حضرت علی مرتضیٰ ؓاور خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا ؑجیسی عظیم شخصیات شامل تھیں۔ بی بی ذینب ؑکے بارے میں مورخین کہتے ہیں کہ اس وقت قریش اور بنوہاشم کی خواتین میں بھی یہاں تک کہ عبدالمطلب کی اولاد تک کی تمام لڑکیوں میں ایک بھی ان جیسی نہ تھیں۔ بی بی ذینب ؑنے اپنے اس علم سے اس دور کے خواتین کو بھی مستفید کیا اور یہاں تک کہ شہر کوفہ سے بھی خواتین آپ کے علم سے فیضیاب ہونے کے لئے آتی تھیں۔جب امام حسینؑ نے دین اسلام کے تحفظ کے لئے کربلا کا قصد کیا تو حسینی قافلے کے ساتھ جانے والوں میں حضرت ذینب ؑاپنے دو بچوں عون و محمد ؑکے ساتھ شامل تھیں۔ آخر کیوں نہ ہوتی اسلام کی بقاء کے لئے قربانی دینے کا وقت جو آچکا تھا۔ پہلے تو ذینب ؑگھبرا گئی لیکن بھائی سے دریافت کیا اور جب صورت حال کاعلم ہوا تو ذینب ؑبیبیوں کی ڈھارس بندھا رہی ہیں اور دعا میں بھی مصروف ہیں اسطرح عاشورہ کا سورج طلوع ہوا اور میدان کارزار میں جنگ کا آغاز بھی ہوا۔ حسین ؑکے تمام انصار و اصحاب ایک ایک کرکے شہید ہوتے جارہے ہیں اور ادھر خیمے میں ذینبؑ حوصلہ دے رہی ہے۔ جب خاندان بنوہاشم کے جوان جنگ کے لئے گئے اور شہید ہونے پر حسینؑ ان کا لاشہ لاتے ہیں تو ذینب ؑاس موقع پر ہمت سے کام لیتی ہیں اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اپنے دونوں فرزندوں عون و محمد ؑکو ذینب ؑبھائی کے پاس لے آئی اور کہا۔
جو کچھ ہے میرے پاس وہ قربان ہے بھائی
دوبیٹے ہیں اور ایک میری جان ہے بھائی
یہ کہہ کر ذینب ؑنے امام عالی مقام ؑ سے عون و محمد ؑ کو میدان میں جانے کی اجازت دلوائی اور جب دونوں بچے شہید ہوکر آئے تو ماں نے بے اختیار سجدہ شکر ادا کیا یقینااس ماں کو ہر دور سلام کرتا رہے گا۔ وقت عصر جب حسین ؑکا سر تن سے جدا ہوگیا اور حسینی قافلے میں سوائے ایک بیمار مرد کے کوئی نہ رہا تو بی بی ذینب ؑ نے اس لٹے قافلے کی قیادت سنبھالی۔ ذینب ؑنے اس موقع پر جس بہادری اور شجاعت کاثبوت دیا وہ رہتی دنیا تک قابل تقلید رہے گا۔ ذینب ؑنے حاکم وقت کے سامنے بڑی دلیری کے ساتھ موقف حسین ؑکی وضاحت کی۔ اور شمع ہدایت کی ٹمٹماتی لو کو سہارا دیا۔ ظالم و جابر بادشاہ کی مجلسوں میں ذینب ؑکے خطاب بلا شبہ خطابت و فساحت کی اعلیٰ ترین مثال پیش کرتے ہیں۔ بازار کوفہ میں ذینب ؑنے جو خطاب کیا اس پر صاحبان علم و فاضل یہ کہہ اٹھے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جناب علی مرتضیٰ ؓ’ تقریر فرمارہے ہیں۔ دربار ابن ذیاد میں بی بی ذینب ؑنے جس منزل کو طے کیا وہ اس مرحلے سے بھی دشوار تھا جس مرحلے کو امام عالی مقام ؑنے کربلا میں طے کیا تھا۔دربار یزید میں یزید کے متفقرانہ سوالات کے جواب میں ثانیہ زہراء ؑکا خطبہ مثالی حثیت رکھتا ہے۔ بی بی ذینب ؑنے دربار میں یزید سے مخاطب ہوکر کہا اے یزید تونے زمین و آسمان کے راستوں کو ہمارے اوپر تنگ کردیا اور قیدی بنایا کیا یہی تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی عورتوں اور کنیزوں کوپرہ میں رکھا ہے اور دختر رسولؐ کی بیٹی کو بے مقنہ و بے پردہ کرکے دربدر پھرا یا۔ ہم امام زادیوں کو قید کرکے تم اپنی بہادری کا جشن منا رہے ہو۔ میرے بھائی کا سر نیزے پہ سوار کرکے تم اپنی ناکامی کو اپنی کامیابی سمجھتے ہو۔ اے یزید یہ تمہاری غلط سوچ ہے کیونکہ حسین ؑکل بھی زندہ تھا، آج بھی زندہ ہے اور رہتی دنیا تک زندہ رہے گا۔ لیکن اے یزید تمہاری قبر تک کا بھی تو کوئی نام و نشاں نہیں رہے گا۔ یہ خطبہ خدا کے رسولؐ کی نواسی اور شیر خداؑ کی شیر دل بیٹی نے دربا رعام میں دیا۔یہ خطبہ حق و صداقت اور علم و معرفت کا بیش قیمت خزانہ تھا۔ اس خطبہ کے ذریعے بی بی ذینب ؑنے مقصد حسینی کی مکمل وضاحت کی اور اسلام کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کا پردہ چاک کیا۔ حسینی مشن کی وضاحت ثانیہ زہرا ؑنے اس طرح کی کہ دربار یزیدی میں تمام لوگ کہہ اٹھے کہ بلا شبہ فصاحب و بلاغت اس خطبہ میں مکمل موجود ہے۔ علامہ مولوی علی نقوی صاحب اپنی کتاب’شہید انسانیت’میں ذینب ؑکے خطبہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ شطرلاغر سر برہنہ سوار اور عام نظروں سے دوچار زینب بنت علی ؑ نے اسے پہلے شاید بلکہ یقینا کسی عام مجموعے میں کوئی تقریر نہ کی تھی اور نہ شاید کسی مقید انسان نے اسے ذیادہ مخالف ماحول میں کبھی تقریر کی ہے مگر جب ذینب ؑنے تقریر کی تو تمام دربار ایک اشارے پر خاموش ہوگیا اسی وقت وہ آنکھیں جو ان قیدیوں کا تماشہ دیکھنے کے لئے بلند ہوئی تھی زمین پر گڑھ گئیں اور ہر شخص اپنے آپ کو مجرم سمجھنے لگا۔ بنت علی ؑکا روب مجموعہ پر چھا گیا تھا اور انکی قوت ارادی اس پر حکومت کررہی تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ذینب ؑکے ان خطبوں اور تقاریر نے ایوان سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا۔ دربار یزیدی کو خطرہ لاحق ہوگیا جس کی بناء پر یزید نے اسیرانِ کربلا کی رہائی کا حکم دیدیا۔ اب اس رہائی سے بیبیاں کیا خوش ہوتیں کہ گودکے پالے تو سب کربلا میں شہید ہوچکے تھے لیکن بی بی ذینب ؑکا صبر و استقامت دیکھئے کہ بیبیوں کو سمجھایا۔ تسلی دی۔ دلاسہ دیا اور قافلے کی سالار بن گئی۔ چالیس دن قید و بند سے رہائی پانے کے بعد اس لٹے قافلے کو پہلے کربلا لے گئی قبر حسین ؑ کی زیارت کے وقت اس بہن کی کیا حالت ہوئی ہوگی جس بہن نے بچپن سے لیکر زندگی کے آخری ساعت تک بھائی کا ساتھ دیا اور اپنے گود کے پالے اس بھائی پر قربان کئے چالیس دن قید و بند میں رہ کر اسیری کی ازیت اٹھائی مگر وارث عظمت شیر دل خاتون بی بی ذینب ؑنے اتنے مصائب و مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود بھی کبھی ہمت نہ ہاری اور آخر اس لٹے قافلے کو لیکر واپس اپنے وطن نانا کے مدینے پہنچی۔
رابطہ۔ہارون ،سرینگرکشمیر
ای میل۔[email protected]