ڈوڈہ//ایک طرف اگرچہ خطۂ چناب ہی نہیں بلکہ پوری ریاست میں ایس آر ٹی سی بسوں کی بہت زیادہ مانگ ہے مگر دوسری طرف متعلقہ محکمہ لوگوں کی اس مانگ کو پورا کرنے میں پوری طرح ناکام ہو چکا ہے اور محکمہ کے حکام یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ لوگ آر ٹی سی بسوں میں سفر کرنے کو ترجیح نہیں دیتے جس وجہ سے محکمہ کو بھاری خسارہ اُٹھانا پڑتا ہے ۔یہ بات قابلِ غور ہے کہ اگر لوگ ایس آر ٹی سی بسوں کی مانگ کرتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ محکمہ کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے اور وہ مختلف سڑکوں پر بسوں میں اضافہ کرنے کی بجائے کمی کرنے پر مجبور ہے؟کیوں متعلقہ حکام یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ لوگ سرکاری بسوں کو کامیاب بنانے میں تعاون نہیں کرتے اور وہ پرائیوٹ گاڑیوں میں سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں؟ان باتوں پر جب غور کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ بات یہ نہیں ہے کہ سرکاری بسوں میں بہت کم لوگ سفر کرتے ہیں اور مسافروں کی اکثریت نجی گاڑیوں پر سفر کو ہی ترجیح دیتی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری بسیں ہمیشہ مسافروں سے بھری رہتی ہیںاور اکثر مسافر نجی گاڑیوں میں تب سوار ہوتے ہیں جب اُنہیں سرکاری بسوں میں جگہ نہیں ملتی۔ٹرانسپورٹ کارپوریشن کو اگر خسارہ اُٹھانا پڑتا ہے تو وہ اس لئے نہیں کہ لوگ تعاون فراہم نہیں کرتے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ کارپوریشن کے اپنے ملازمین ہی اسے دو دو ہاتھ لوٹ رہے ہیں۔ایک سرکاری بس کی ایک دن کی آمدنی کا 80فیصد سے زائد حصہ اُس بس میں تعینات ڈرائیور و کنڈیکٹر اور محکمہ کے دیگر ملازمین کی جیبوں میں چلا جاتا ہے جب کہ کارپوریشن کو 20فیصد سے بھی کم حصہ ملتا ہے۔عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ خطۂ چناب کی سڑکوں پر چلنے والی سرکاری بسیں اکثر مسافروں سے بھری ہوتی ہیں اور بہت سارے لوگ سرکاری بسوں میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے پرائیویٹ گاڑیوں میں سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں،مگر ان بسوں میں سوار اکثر لوگوں کو ٹکٹ نہیں دئے جاتے ہیں اور جو کرایہ اُن سے وصول کیا جاتا ہے وہ متعلقہ کندیکٹر،ڈرائیور اور دیگر اہلکاران کھا جاتے ہیں۔شروع اسٹیشن پر بھی صرف چند مسافروں کو ٹکٹ فراہم کئے جاتے ہیں اور باقی لوگوں کو بغیر ٹکٹ کے ہی سوار کیا جاتا ہے تاکہ اُن سے وصول ہونے والی کرایہ کی رقم کو ہڑپ کیا جا سکے۔محکمہ کی طرف سے ٹکٹ چیکنگ کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی لوگوں میں اس بات کا شعور پیدا کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ وہ کنڈیکٹر سے لازمی طور ٹکٹ حاصل کریں۔کنڈیکٹر جب بغیر ٹکٹ دئیے کرایہ وصول کرے رقم اپنی جیب میں رکھ لیتا ہے تو اُس پر نہ تو کوئی اعتراض کرتا ہے اور نہ ہی اس بات کو معیوب سمجھا جاتا ہے،البتہ اگر کوئی با شعور مسافر کندیٹر سے ٹکٹ طلب کرے تو ایسے شخص سے کندیکٹر حضرات جھگڑا کرتے ہیں اور بس میں سوار مسافروں کی اکثریت ٹکٹ طلب کرنے والے کو ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں گویا اُس نے کوئی جرم کیا ہو۔اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ بس میں سوار اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ یہاں تک کہ پولیس اہلکاران بھی کنڈیکٹر سے ٹکٹ طلب کرنے سے عار محسوس کرتے ہیں۔سرکاری بسوں کی چھتوں پر لوگ جو سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں اُس کا بھی پورا کرایہ وصول کیا جاتا ہے مگر اُسے کارپوریشن کا نہیں بلکہ کنڈیکٹر اور ڈرائیور کاحق تصور کیا جاتا ہے۔خطۂ چناب کی سڑکوں پر چلنے والی اکثر بسوں کی حالت انتہائی خستہ ہو چکی ہے اورشیشے،کھڑکیاں اور سیٹیں وغیرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ہیں مگر اُن کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔کندیکٹر اور ڈرائیور حضرات کرایہ وصول کرتے وقت خود کو بس کا مالک تصور کرتے ہیں مگر جب بس کی دیکھ بھال وغیرہ کا معاملہ آ جاتا ہے تو اُس وقت وہ سرکاری بس کہلاتی ہے۔ظاہر ہے کہ ایسی صورتِ حال میں کارپوریشن کو خسارے کے سوا کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے متعدد معززین کا بھی یہی کہنا تھا کہ اگر کارپوریشن نے اپنے ملازمین میں امانت داری کا جذبہ پیدا کرنے اور کرایہ کی وصولیابی اور ٹکٹوں کی چیکنگ کے نظام میںسدھار پیدا نہ کیا توکارپوریشن کو خسارے کے سوا کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے اوراگرمتعلقہ حکام دیانت داری کے ساتھ کارپوریشن کی بہتری کے لئے کام کریں تو نقصان کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔