بلال احمد پرے۔ ترال
خانہ کعبہ ہمیشہ سے دین حنیفی کا مرکز و ماویٰ بنا رہا، جس کے طواف کرنے والے قبیلہ قریش میں سے ایسے اشخاص ہمیشہ موجود رہے جو دین حنیفی کے علم بردار اور پیروکار تھے ۔ یوں تو قربانی کا سلسلہ بابائے انسانیت حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے چلا آیا ہے ۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام و حضرت اسماعیل علیہ السلام سے اس سے مزید فوقیت حاصل ہوئی ہے ۔ اس کے بعد اس میں نئی جان، نئی پہچان، نئی روح ڈال دی گئی ہے ۔ حضرت ابراہیمؑ مشہور و معروف برگزیدہ پیغمبر حضرت نوح ؑ کی تابعداری ( الصافات۔ ٨٣) کرنے والوں میں سے تھے۔ آپؑ بڑی سچائی والے، راست گو، حق شناس اور عظیم الشان والے پیغمبر تھے۔ آپ ؑ کا اصل وطن عراق تھا اور بعد میں ملک شام کی طرف ہجرت کیں۔ جہاں سے آپؑ فلسطین چلے گئے اور وہیں دین اسلام کو اپنا دعوت و مشن کا مرکز بنا لیا۔
آپ علیہ السلام یہودی اور نہ نصرانی تھے بلکہ حنیف یعنی یک سو ہو کر مسلمان تھے ۔ آپ ؑ کو قرآن کریم میں ‘للناس اماما یعنی لوگوں کا امام کے لقب سے (البقرة۔ ۱۲۴) پکارا گیا ۔ جس کے بعد آپ کو لوگوں کے لئے امام، قائد و رہنما کے الفاظوں سے تعارف فرمایا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ قرآن کریم کی چودھویں سورۃ آپؑ ہی کے اسم مبارک سے منسوب کی گئی ہے ۔ قرآن کریم نے حضرت ابراہیمؑ کے اسوہ حسنہ کا نقشہ متعدد آیات میں کھینچا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے اسوہ حسنہ میں امت مسلمہ کے لئے ایک بہترین پیغام حاصل ہوتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’بے شک تمہارے لئے ابراہیم ؑ اور اُن کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ (اقتداء) ہے‘‘ (النساء؛ ۶۰)
آپ ؑ کو بڑی آزمائشوں اور بے مثال قربانیوں و خطرات سے گزرنا پڑا۔ آپؑ کا اسوہ جستجو، کشمکش، تلاشِ حق، دعوت و تبلیغ، صبر و استقامت، محبت و نرم روی، فرمانبرداری اور وفا شعاری جیسے انمول اوصاف سے بھری پڑی ہے ۔
۱۔ جستجو اور تلاش حق۔ قرآن کریم نے متعدد آیات میں آپ ؑ کی جستجو اور تلاشِ حق کا نقشہ کھینچا ہے۔ آپ ؑ ابتدا سے ہی اپنی قوم کے لوگوں سے بالکل مختلف خیالات کے مالک تھے ۔ آپؑ نے غیر اللہ کی عبادت کو معہ دلیل کے کُھل کر مخالفت کی ہے۔ آپ نے اپنی مشرک قوم سے صاف طور پر اپنی بیزاری ظاہر کی اور ان سے قطع تعلق کا اعلان کر دیا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ “اللہ کی عبادت کرو، اس سے ڈرو، یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم عاقل و دانا ہو ۔” (العنکبوت۔ ۱۶)
آپؑ اپنے والد کے ہاتھوں تراشے ہوئے بُتوں کو چھوڑ کر اصل خالق و مالک کی تلاش میں تحقیق و طلب گار بن کر تنہا نکل پڑے ۔کبھی ستارہ، کبھی چاند اور کبھی سورج کو اپنا ربّ تصّور کرنے لگے۔ لیکن ان سب کے ڈوب جانے پر اپنی نئی امید کے ساتھ تلاشِ حق کو جاری و ساری رکھتے ہوئے اپنا سفر مستقل رکھا۔ یہاں تک کہ حقیقی طور پر رب العالمین کا کامل یقین کرنے والوں میں سے ہو گئے ہیں اور تسکین ایمان کی حلاوت (البقرہ 258 تا 260) بھی پاگئے۔ اس طرح آپ ؑ ‘خلیل اللہ یعنی اللہ کے سچے اور پکے دوست ہو گئے ہیں ۔ ’اور ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص دوست بنا لیا ہے ‘۔ (النساء۔ ۱۲۵)
۲۔وحدانیت اور ردعمل۔ آپؑ نے اپنی قوم کے سامنے بڑی حکمت و دانائی کے ساتھ دعوت الی اللہ پیش کیں ۔ اپنی قوم کی اصلاح کے لئے ان کی ذہن کی بتی کو جلا بخشی ۔عقل سلیم سے ایک اللہ کی دعوت دی۔ آپ ؑ نے جن الفاظ میں اپنی قوم کو وعظ و نصیحت کی ہے اُنہیں قرآن کریم نے یوں ارشاد فرمایا ہے کہ ’ تم انہیں پوجتے ہو، جنہیں خود تم تراشتے ہو ‘۔ (الصافات۔ ۹۵)
حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی قوم کے لوگوں کو سمجھایا کہ آخر اصل ذات اللہ تعالیٰ ہی کی ہے جس سے تمہارے یہ تراشے گئے پتھر کے معبود کبھی ہم پلہ نہیں ہو سکتے ہیں۔ اُس کی صفات اور اُس کے اختیارات میں یہ کہاں شریک ہو سکتے ہیں۔ یعنی جو نہ کھا سکتے ہیں، نہ سن سکتے ہیں، نہ دیکھ سکتے ہیں، نہ بول سکتے ہیں، نہ زندہ کر سکتے ہیں اور نہ مار سکتے ہیں، وہ آپ کے حاجات کیسے پورا کر سکتے ہیں ، وہ آپ کو کیسے فائدہ دے سکتے ہیں؟ اس دعوت پر قوم کا ردعمل آپ ؑ کے مخالف شروع ہوگیا۔ اور آپ ؑ کو دعوت حق پیش کرنے پر دھکتی ہوئی آگ (الصافات؛ ۹۷) کے شعلوں میں بڑی بے دردی سے ڈالا گیا۔ لیکن آپ کے ربّ نے اُن کے اس مکر کے برعکس اُسے آگ کو بھی گلستان بنا دیا اور اپنے خلیل کے لئے اس سے بے ضرر، سلامتی اور رحمت بنا دیا۔ ارشاد ہے کہ ’اے آگ ٹھنڈی ہو جا، ابراہیم کے لئے سلامتی بن جا۔‘( الانبیاء۔۶۹) ابراہیم علیہ السلام کی صدائے حق بلند ہوتے ہی نمرود کے علاوہ تمام پجاری، خاص اور عوام سب کے سب مل کر اس سے دبانے کے لئے برسر میدان کھڑے ہو کر نکل آئیں ۔
۳۔ قلبِ سلیم ۔ حضرت ابراہیم ؑ کا دل مبارک شرک و کفر سے بالکل پاک تھا ۔ بُت پرستی، سرکشی، نافرمانی اور دیگر بُرے میلانات سے خالی تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’جب یہ اپنے رب کے پاس بے عیب دل آئے ۔‘(الصافات۔ ۸۳)قلب سلیم یعنی صحیح سلامت دل کے جو تمام اعتقادی و اخلاقی خرابیوں سے پاک ہو، جس میں شرک و کفر کی نجاست نہ ہو، شکوک و شبہات کا شائبہ نہ ہو ، سرکشی اور نافرمانی کا جذبہ نہ ہو، جو ہر قسم کے بُرے میلانات اور ناپاک خواہشات سے بالکل صاف و پاک ہو۔ جس کے اندر بغض، کینہ پروری، حسد یا بد خواہی نہ ہو اور جس کی نیت میں کوئی کھوٹ موجود نہ ہو ۔
۴۔حُسنِ سلوک ۔ قرآن کریم میں جہاں متعدد آیات مبارکہ میں والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آنے کا حکم فرمایا گیا ہے وہیں حضرت ابراہیم ؑ کا اپنے والد کے سامنے دلکش اور نرم انداز میں دعوت پیش کرنے کا تذکرہ ملتا ہے۔ سورۃ المریم میں آپؑ کی اسی دعوت کے دلکش انداز کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ کس طرح آپ ؑ نے ’ اے میرے ابا جان !جیسے محبت بھرے خوبصورت الفاظ سے اپنے والد کو مخاطب کر کے دعوت پیش کی ہے۔ جب کہ اس کے ردعمل میں آپؑ کو اپنے والد سے بڑے ہی تند و تیز مزاج میں جواب ملتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود بھی آپ ؑ اپنا وطن چھوڑنے کے بعد بھی اپنے والدین کے حق میں مسلسل مغفرت (ابراہیم۔ ۴۱) کی دُعا کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔
۵۔ اولاد کی خواہش ۔ حضرت ابراہیم ؑ جب آگ سے بسلامت نکل پڑے تو اس کے بعد آپ ؑ نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر ملک شام کی طرف ہجرت کرنے کا فیصلہ لے لیا۔ ہجرت کے وقت تک آپ ؑ بے اولاد تھے اور مسلسل صرف اور صرف اللہ رب العالمین سے اولاد کی دُعا کرتے رہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’اے میرے رب! مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما ۔‘ (الصافات۔ ۱۰۰)اللہ رب العالمین نے آپ ؑ کو بڑھاپے کی حالت کے پہنچنے تک بے اولاد رکھا اور بڑی آزمائشوں میں ڈال دیا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’ تو ہم نے ان کو ایک برد بار بچے کی بشارت دی ۔‘ (الصافات۔ ۱۰۱) بالآخر رب ذوالجلال نے آپ ؑ کی دعا قبول فرمائی اور آپ ؑ پر نہایت ہی فضل و احسان فرما کر آپ کو دو ازواج سے اسماعیل ؑاور اسحاق ؑ جیسے دو صالح اور فرمانبردار اولاد عطا کر دئے، جن سے آپ ؑ کی نسل (المریم۔ ۴۹) آگے چلتی گئی ۔
۶۔توکل اور جدوجہد۔ حضرت ابراہیم ؑ کو اپنی زوجہ حضرت ہاجرہ ؑ اور اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل ؑ کو بے آب و گیاہ چٹیل میدان جیسی وادئ بیابان میں ربّ کی طرف سے چھوڑ دینے کا حکم ملا۔ یہ صاحب اولاد ہونے کے بعد وہ امتحان تھا جو اس سے اپنے حقیقی رب کی اطاعت و فرمانبرداری کا ثبوت دینا مطلوب تھا۔ یہاں حضرت ہاجرہ اور اسماعیل علیہم السلام کا توکل اور ان دونوں کی جدوجہد کا منظر اپنے آپ میں نرالا ہے۔ حضرت ہاجرہ کی لبوں کی خاموشی اپنے شوہر کی مطیع اور فرمانبرداری کی عکاسی کرتی ہے ۔ آپ کی صفا اور مروہ کے درمیان دوڑ لگانا اپنے آپ میں ایک جدوجہد ہیں ۔ جو عزتِ نفس سے جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے ۔ جس سے آج ہمارے حاجی ارکان حج کے دوران بڑے ہی شوق اور ولولہ سے انجام دے رہے ہیں ۔
۷۔محبت اور فرمانبرداری ۔یہ ایک قدرتی فطرت ہے کہ انسان کو اپنے لخت جگر سے بے پناہ محبت ہوتی ہیں۔ لیکن جب یہی لخت جگر مانگ مانگ کر بڑھاپے کی عمر میں ملا ہو تو محبت کس حد تک ہوگی۔ اللہ اکبر! ایسا ہی کچھ حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ ہوا ۔ آپ ؑ کو فوراً رب العالمین نے خواب کی شکل میں وحی نازل فرمائی کہ اس محبت کو اپنے حقیقی رب کی محبت کے اوپر قربان کیا جائے ۔یہاں اولاد یعنی اسماعیل ؑ کی محبّت اور بیٹے کی فرمانبرداری کا قصہ بھی نرالا ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ ’جب وہ ( بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ ان کے ساتھ چلے پھرے تو انہوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ ’پیارے بیٹے ! میں خواب میں اپنے ہاتھوں آپ ( اسماعیلؑ) کو ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، اب آپ بتائیں کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا جان ! جو آپ کو حکم ملا ہے اسے بجا لائیں، ان شاء اللہ، آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘(الصافات۔ ۱۰۲)یہ وہ بے مثال قربانی تھی جو سنت ابراہیمؑ ٹھہری اور ربّ کے یہاں بے حد پسند فرمائی گئی ہے۔
۸۔ کُھلا امتحان اور سچائی ۔حضرت ابراہیمؑ کا خواب دیکھنا اور اپنے صالح اولاد سے اس کی رائے لینا یہی سکھاتا ہے کہ آپ ؑ دراصل اسماعیلؑ کی صلاح اور فرمانبرداری دیکھنا چاہتے تھے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آپ ؑ اپنے والد کے کس قدر جسمانی، اخلاقی اور روحانی حیثیت سے ان کا سپوت ہیں۔ اس پر بیٹے نے والد کے خواب کو محض خواب نہیں سمجھا بلکہ اپنے رب کا حکم جانا ہے ۔ جب دونوں حضرت ابراہیمؑاور آپ کے لخت جگر اسماعیل ؑ مطیع ہوگئے اور بیٹے کو پیشانی کے بل گرا کر قربان کرنا چاہا تو اللہ نے ندا دی کہ ’ اے ابراہیم ! یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا‘۔ (الصافات۔ ۱۰۵) رب ذوالجلال نے قران کریم میں اس بے مثال قربانی کو کُھلے امتحان سے تعبیر کیا ۔
الغرض عرب دنیا کا ابتدائی دین اصل میں دینِ ابراہیمی تھا، جو بالکل یکسو تھا، شرک و بت پرستی سے پاک تھا ۔ حضرت ابراہیمؑ کی قربانی اُن احساسات کی عکاسی اور جذبات کی ترجمانی کرتی ہے جو آپؑ کے مبارک دل اور رگ و ریشہ میں پیوست تھی ۔ اسوہ ابراہیمؑ حقیقی محبت کی وہ دلیل ہے جو آپؑ نے اپنے ربّ سے واقعی کر کے دکھایا۔ یہ آدابِ فرزندگی کے بجا لانے کا وہ گُر سکھاتی ہے جو اسماعیلؑ نے اپنے والد محترم کے سامنے صابر و فرمانبردار ہو کر ثابت کیا ۔
خلاصہ کلام یہی ہے کہ اسوہ ابراہیم ؑ کو حق اور حقیقی نظر سے اس طرح دیکھا جائے کہ ہماری نماز، ہماری قربانی، ہمارا جینا اور ہمارا مرنا صرف اور صرف اللہ رب العالمین کے لئے ہو ۔
رابطہ۔ 9858109109
[email protected]