ڈاکٹر عریف جامعی
اسلام نے بحیثیت ایک مکمل ضابطہ حیات دین و دنیا کا ایک ایسا امتزاج پیش کیا ہے جس کو اختیار کرکے انسان ابدی سعادت حاصل کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام دین اور دنیا میں کسی تفریق کا روادار ہے اور نہ ہی یہاں دنیا کی صلاح یعنی بناؤ کو اخروی فلاح یعنی کامیابی و کامرانی سے الگ کرکے دیکھا جاتا ہے۔ ویسے بھی زندگی ایک ایسی نامیاتی اکائی (آرگینک ہول) ہے جسے اگر مختلف خانوں میں تقسیم کیا جائے تو اس کی یگانگت اور ہم آہنگی قائم نہیں رہ سکتی۔ اگر زندگی ایک اکائی کی صورت میں کام کرنا چھوڑ دے تو انسان ہر دم انتشار اور افتراق کا شکار رہے گا اور وہ ہمیشہ سکون اور اطمینان کی دولت سے محروم رہے گا۔ دراصل سکون و اطمینان انسان کا ایسا سرمایہ ہے جس کے پانے کے لئے انسان نہ جانے کتنے جتن کرتا ہے۔ انسان نے ابتدائے آفرینش سے اسی لئے معاشرتی زندگی (سوشل لائف) کو انفرادی زندگی (انڈویجول لائف) پر ترجیح دی ہے کہ وہ سکون کے ساتھ زندگی گزارنے کا متمنی رہا ہے۔
اب جہاں تک معاشرتی زندگی کا تعلق ہے تو یہ فقط رشتوں کی پائیداری سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ رشتوں کی بات کی جائے تو انسان کا پہلا اور بنیادی رشتہ ذات خداوندی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس رشتے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ انسان کو خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے یا نہیں۔ یہ معرفت سچی اور پکی ہو تو رشتہ پکا اور پائیدار ہوتا ہے، جبکہ معرفت کچی ہونے کی صورت میں یہ رشتہ ناپائیدار ہوتا ہے۔ چونکہ خدا کی ذات غیر مادی اور غیر مرئی ہے، اس لئے اس ذات پاک کی معرفت کے لئے ایسے ذرائع استعمال کرنا پڑتے ہیں جو مادیت سے ماوراء ہوں۔ اس لئے اس رشتے کو استوار کرنے کی طرف سب سے بڑا قدم یہ ہے کہ اس ذات پر ایمان لایا جائے، یعنی اس کو دل و جان سے مانا جائے اور اس کو ہر دم یاد رکھا جائے۔ اسی ایمان اور یاد سے انسانی دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کا ارشاد ہے: “جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔” (الرعد، 28)
خدا پر ایمان اور خدا کی یاد کے ساتھ ساتھ جو چیز ایک بندۂ مومن سے مطلوب ہے وہ اس ذات کے ساتھ گہری محبت ہے۔ محبت دراصل وہ شدید اور والہانہ جذبہ ہے جو محب کے دل میں پیدا ہوا تو وہ اسے محبوب کی ذات کے ساتھ وارفتگی کی آخری حد تک متعلق کردیتا ہے۔ اس جذبے کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ محب محبوب کی ہر ادا پر اپنا دل و جان وار دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ جب یہ محبت ذات خداوندی کے ساتھ پیدا ہو جاتی ہے تو بندہ خدا کے پیغمبر کا مطیع فرمان بن جاتا ہے۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: “کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تم سے محبت کرے گا۔” (آل عمران، 31) سیدنا مسیح ؑ کی زبان میں: “خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے۔ اور دوسرا اس کے مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ۔ انہی دو حکموں پر تمام تورات اور انبیا کے صحیفوں کا مدار ہے۔” (انجیل متی، 22، 37-40)
تاہم انسان کا “رب کا ہونے” یا “ربانی بننے” کی ایک اور جہت بھی ہے۔ اس جہت کی نوعیت کا تعلق اس بات پر ہے کہ انسان کا خدا کے بندوں یعنی عباد اللہ کے ساتھ تعلق کیسا ہے؟ پہلا تعلق نبھانا حقوق اللہ کے ساتھ منسلک ہے، جبکہ دوسرا تعلق حقوق العباد کے ساتھ منسلک ہے۔ اس تعلق کو نبھانے کے لئے قیدی یا غلام کو آزاد کرنا، قرضدار کا قرض معاف کرنا، قرض ادا کرنے میں مہلت دینا، قرض اتارنے میں مدد کرنا، مسکین کو کھانا کھلانا، یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنا، لاچار کو سہارا دینا، احسان نہ جتاتا اور بدلہ یا معاوضہ حاصل کرنے کی نیت کے بغیر احسان کرنا جیسی نیکیاں شامل ہیں۔ ہمسائیگی اور رشتہ داری کے تعلقات بحسن و خوبی نبھانا بھی اس میں شامل ہے۔ تاہم ہمسائیگی میں اتنی وسعت ہے کہ کچھ وقت کے لئے ساتھ سفر کرنے والے (صاحب بالجنب، النساء، 36) کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنا بھی اس دوسری جہت کی ایک کڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ “رہبانیت” کی نہ صرف حوصلہ شکنی کی گئی ہے بلکہ “ربانی” لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ “رہبان فی الیل و فرسان فی النہار” یعنی “رات کے عبادت گزار اور دن کے شہسوار” ہوتے ہیں۔
شیخ نورالدین ؒ نے اپنے فکر و عمل، جس میں زہد کا رنگ چھایا ہوا تھا، سے اسی “ربانیت” کی علم بلند کی اور اس سلسلے میں ایک عظیم داستان رقم کی۔ ایک ایسے دور میں جب کشمیری جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہورہے تھے، حقیقی روح اسلام سے لوگوں کو روشناس کرانے کی اشد ضرورت تھی۔ اگرچہ وسطی ایشیا سے وارد کشمیر ہونے والے صوفیاء کرام اپنے لحاظ سے لوگوں کی تعلیم و تربیت کا کام بخوبی انجام دے رہے تھے، لیکن حضرت شیخ ؒ نے اسی کام کو کچھ اس طرح کرنا شروع کیا کہ یہی لوگوں کے دلوں کی آواز بن گئی۔ چونکہ لوگ اسلامی روایات، جو لوگوں کے لئے اجنبی تھیں، قبول کرتے ہوئے اس کشمکش کا شکار تھے کہ پرانی مذہبی روایت کو کیونکر خیرباد کہا جائے، شیخؒ اس صورت حال کو بیان بھی کررہے ہیں اور اس کے لئے علاج بھی تجویز کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
یتھ واوء ہالے ژونگ کس زالے
تلہ کنہ زالیس علم تہ دین
پر کتھ ترآوتھ سو کتھ پالے
سورے علم چھس الف لام میم
یعنی “مکر و فریب کی ان کالی گھٹاؤں میں کون اخلاص کی شمع روشن کرے گا؟ اس چراغ کے لئے علم دین روغن زیتون کا کام دے گا۔ (ایسے شخص کو) کذب اور منافقت سے کنارہ کش ہونا پڑے گا۔ (ایسا عمل کرنے کے لئے) عامل کے لئے قرآن کا علم کفایت کرے گا۔”
تاہم لوگوں کو دین حق کی تعلیم دینا ایک ایسا دل گردے کا کام ہے جو ہر کس و ناکس انجام نہیں دے سکتا۔ اس کے لئے اخلاص اور للٰہیت کا وافر ذخیرہ چاہئے تاکہ بندۂ حق انسانیت کا درد لیے لیے پھرے اور خلق خدا تک حق کی پکار پہنچائے۔ جب انسان خود اخلاص کے ساتھ خدا کے احکامات کی پیروی کرتا ہے، تو خدا اس کے تھوڑے سے عمل میں بھی برکت ڈال دیتا ہے۔ ایسے شخص کا تھوڑا عمل بھی نہ صرف خود اس کے لئے کافی ہوجاتا ہے، بلکہ اوروں کے لئے بھی یہ عمل اچھے نتائج پیدا کرتا ہے۔ اس باپت حضرت شیخ ؒ فرماتے ہیں:
الحمد قل ھو اللہ التحیاتو
پالکھ تہ چھے قرآنس یوتو
نتہ ابلیسن پریان کاتو
گوس پئترن سگ تہ مولن دروتو
یعنی “اگر آپ (اے بندۂ مومن) عقیدۂ توحید کو مدنظر رکھتے ہوئے رب تعالی کی تحمید و تقدیس کرتے رہو گے اور تمام رموز بندگی صرف اس ایک خدا کے لئے بجا لاؤ گے، تو ایسا عمل شجر طیبہ کی طرح اس طرح ثمر دے گا کہ جیسے آپ نے پورے قرآن پر عمل کیا ہوگا۔ اب اگر عمل کی بنیاد خلوص پر مبنی نہیں ہوگی تو ایسا عامل ابلیس کی طرح راندۂ درگاہ ہوجائے گا اور اس کی پوری کی پوری عبادت رائگاں ہوجائے گی۔” اس مضمون کو قرآن کی اس آیت سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے: “اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔” (الصف،2)
دراصل شیطان یہی چاہتا ہے کہ انسان اسی طرح اللہ کی پھٹکار کا مستحق ہوجائے جس کا وہ خود شکار ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس تاک میں رہتا ہے کہ انسان کے خلوص کی کھیتی کو برباد کر ڈالے۔ اس لئے وہ انسان کے سر پر کچھ اس طرح سوار ہوجاتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ کیے گئے وعدے بھول جاتا ہے۔ اس طرح انسان نہ صرف “عہد الست” بھول جاتا ہے، بلکہ کلمہ طیبہ کے ذریعے کی گئی اس عہد کی تجدید کو بھی طاق نسیاں کردیتا ہے۔ حضرت شیخ (رح) بڑے پیارے انداز میں اس مضمون کو بیان کرتے ہیں:
وعدء کورتھ تہ کربا
تہ کربا ژیتس پییی
اوت ڑے ژونتھ خربا
یہ سآنژ مڑے کونگ وار کھییی
تتہ کس با داری تھربا
ییتہ ننس کرتل پییی
مرنہ برونٹھے مربا
مئرتھ مرتبہ ییی
یعنی “آپ نے وعدہ تو کیا، لیکن اس وعدے کو ذہن میں نہ رکھا۔ نتیجتاً آپ نے اپنے دل میں شیطان کو جگہ دی جو آپ کے ایمان کی کھیتی کو کھا جائے گا۔ وہاں (آخرت میں) کون آپ کی مدد کرے گا جہاں آپ بے یار و مددگار ہوں گے۔ (اس لئے بہتر یہ ہے کہ) مرنے سے پہلے وہاں کے لئے کچھ توشہ جمع کرلے، تاکہ وہاں آپ رسوائی سے بچ سکیں!”
حضرت شیخ ؒکو اس بات کا کامل یقین تھا کہ عمل کے بغیر وافر علم بھی بے کار اور بے سود ہے۔ حدیث کی رو سے علم کے بغیر عمل کم سے کم عمل کرنے والے فرد کو فائدہ دیتا ہے، لیکن عمل کے بغیر علم عالم کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ ایسا عالم اپنے علم سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا پاتا، کیونکہ وہ صرف بوجھ ڈھونے والا ایسا جانور بن جاتا ہے جو بیجا بوجھ تلے دبا رہتا ہے۔ اس مضمون کو جناب شیخ (رح) یوں ادا کرتے ہیں:
پران پران تہ پرء گئے
تم خر گئے کتابہ بوراہ ہیتھ
یم دلہ نش با خبر گئے
تم نر گئے فضل تہ عطا ہیتھ
یعنی “جنہوں نے علم تو حاصل کیا لیکن اپنے عمل کو اس علم کے مطابق نہیں ڈھالا، وہ صرف آلات علم کا بوجھ جانوروں کی طرح اپنے شانوں پر لیے لیے پھرتے ہیں۔ تاہم جن لوگوں نے حاصل شدہ علم کی قدر کرتے ہوئے اس پر عمل کیا، انہوں نے اپنے رب کا فضل و کرم حاصل کیا، یعنی ان کے لئے ان کا علم حقیقی معنوں میں علم نافع بن گیا۔” شیخ ؒ کے اس کلام کا ماخذ قرآن کی یہ آیت معلوم ہوتی ہے: “جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا، پھر انہوں نیاس پر عمل نہیں کیا، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں لادے ہو۔” (الجمعہ، 5)
اس طرح حضرت شیخ ؒعلم کو کوئی مجرد شئے نہیں مانتے، بلکہ آپ علم کو برتنے کی دعوت دیتے ہیں، تاکہ علم انسانیت کا رویہ بن جائے۔ یہی وجہ ہے آپ رہبانیت، جس کی قرآن (الحدید،27) نے کسی صورت میں حوصلہ افزائی نہیں کی ہے، کے بجائے ربانیت کی دعوت دیتے ہیں۔ اس دعوت میں حضرت شیخ ؒ علم کو ہی سب سے بڑا وسیلہ اور ذریعہ تسلیم کرتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب آپ میر سید محمد ہمدانیؒکی ترغیب پر گوشہ نشینی کو ترک کرتے ہیں، تو اپنے خلیفہ، بابا نصر سے یوں مخاطب ہوتے ہیں:
نصر بابہ جنگل کھسن گیم خآمی
مئہ دوپ یہ آسہ بئڑ عبادت
وچھ تہ یہ آس بئڑی بدنآمی
سر آس کرئنی کنی کتھ
یعنی “بابا نصر! میرا دنیا سے کنارہ کش ہوجانا ایک خطا تھی۔ میں نے ترک دنیا (رہبانیت) کو ایک بڑی عبادت تصور کیا تھا۔ اصل میں اس سے ہمیں کوئی نیک نامی حاصل نہیں ہوئی۔ دراصل ہمیں ایک بات (حقیقت) کی تلاش تھی۔” اور حقیقت کو ربانیت کے ذریعے ہی پایا جاسکتا تھا!
(مضمون نگار محکمہ اعلی تعلیم میں اسلامک سٹیڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔)
رابطہ۔ 9858471965
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔