جہلم آہستہ آہستہ مر رہا ہے ۔7اضلاع میں ہر روز ہزاروں ٹن فضلہ، پالی تھین و پلاسٹک دریا بُرد

 جہلم ریور کنزرویشن پروجیکٹ اور قومی واٹر مینجمنٹ کی تکنیکی معاونت کا کہیں اتہ پتہ نہیں

اشفاق سعید

سرینگر //وادی کشمیر بنیادی طور پر دریائے جہلم اور اس کی معاون ندی نالوں اور نہروں کا ایک سیلابی میدان ہے۔ دریائے جہلم میں بہاؤ کی یکسانیت کو برقرار رکھنے میں وادی کی جھیلوں اور اس سے منسلک وسیع دلدلوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ دریا شریانوں کی طرح ہیں، جو دل، سمندر میں بہتی ہیں۔ یہ اندرون علاقہ واٹرباڈیز کو اپنے اندر سمیٹ کر بالآخر خود کو سمندر میں گم کرتا ہے۔سری نگر شہر اور کشمیر کے دیگر علاقوں میں زندگی دریائے جہلم کے گرد گھومتی ہے۔ دریائے جہلم وادی کشمیر کی پہچان اور یہ ویری ناگ کے ایک چھوٹے سے چشمے سے نکلتا ہے حالانکہ اس کا حقیقی منبع جنوب مشرق میں چند کلومیٹر آگے ہے۔ 4 آبی سلسلے یعنی نالہ ساندرن ، برنگی، آرپیٹھ اور لدر ، کھنہ بل اننت ناگ کے قریب جہلم میں شامل ہوتے ہیں۔سنگم کے مقام پر جہلم کیساتھ نالہ ویشو اور رمبی آرہ ملتے ہیں اور کاکہ پورہ کے نزدیک نالہ رومشی ملتی ہے۔ جہلم کی اس کے منبع سے بارہمولہ تک لمبائی 241 کلومیٹر ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق اننت ناگ (11.72 لاکھ)، کولگام (4.23 لاکھ)، پلوامہ (5.70 لاکھ)، سرینگر (12.50 لاکھ) ، بڈگام (7.55 لاکھ)، گاندربل (2.97 لاکھ) اور بارہمولہ (10.15 لاکھ) دریا میں آلودگی پھیلانے والے بڑے قصبے ہیں۔ ان قصبوں کا گندا پانی، ندی، نالوں، نہروں میں چھوڑا جاتا ہے جو بالآخر دریائے جہلم تک پہنچتا ہے اور اس کی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔دریائے جہلم، کشمیر کے ایک طویل حصے سے گزرتا ہے اور آخر کار خود کو دریائے سندھ (823 کلومیٹر) کے حوالے کر دیتا ہے۔ جہلم خوبصورت سری نگر شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔

 

 

وادی کی خوبصورت جھیلیں زیادہ تر جہلم کے پانی سے جڑی ہوئی ہیں۔سرینگر شہر میں 54 ڈی واٹرنگ پلانٹس ہیں اور 32 دریائے جہلم میں خارج ہوتے ہیں۔ دریائے جہلم سرینگر، سوپور اور بارہمولہ کیلئے پینے کے پانی کی فراہمی کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ اس کی ماحولیاتی حیثیت کو بحال کرنے کے لیے دریا کی حیاتیاتی تنوع کا مطالعہ اور نگرانی کی جانی چاہیے تاکہ جہلم ریور کنزرویشن پلان (JRCP) کے تحت آلودگی میں کمی کے لیے اسکیموں کو نافذ کیا جاسکے، اسکے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے ورنہ جہلم کا وجود آہستہ آہستہ ختم ہوتا جائیگا اور ہم دیکھتے رہ جائیں گے۔ جہلم ریور کنزرویشن پلان کے تحت اسکیموں کو جموں و کشمیر ریاستی حکومت اپنی شناخت شدہ نوڈل ایجنسی، جے اینڈ کے لیکس اینڈ واٹر ویز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ذریعے نافذ کرسکتی ہے۔جہلم ہر قسم کے کچرے کا ڈمپنگ گراؤنڈ بنا ہوا ہے۔

 

 

اگرچہ حکومت نے ایک اور سیلاب ر کو روکنے کے لیے دریا کے پشتوں کو مضبوط کرنے کے حوالے سے کافی پیش رفت کی ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی استحصالی سرگرمیوں کی وجہ سے جہلم آہستہ آہستہ مر رہا ہے۔دریائے جہلم کے دونوں جانب آباد اننت ناگ، کولگام،پلوامہ،بڈگام،سرینگر، بارہمولہ، گاندربل اور بانڈی پورہ کے قریب 120سے زیادہ دیہات سے نکلنے والاتمام فضلہ، گندگی، پالی تھین، اور ہر طرح کا کوڑا کرکٹ دریائے جہلم میں بہایاجاتا ہے۔ سرینگر میں کوئی کلی سیوریج پروجیکٹ نہیں ہے۔ گاد، مائع اور ٹھوس فضلہ کی مفت رسائی نے پورے دریا اور اس کے بعد وولر جھیل کو بھی برباد کر دیا ہے۔انسانی اخراج، جانوروں کی لاشیں، بوسیدہ خوراک، سنگل یوز پلاسٹک اور پشتوں کے ساتھ رہنے والے لوگوں کی طرف سے دریا میں پھینکا جانے والا ہر قسم کا فضلہ دریائے جہلم کے ماحولیاتی نظام کو بتدریج تباہ کر رہا ہے۔ سرینگر کے مختلف حصوں میں 80 چھوٹے اور بڑے ڈی واٹرنگ اسٹیشنوں کے ذریعے روزانہ تقریباً 100 کیوسک فضلہ جہلم میں منتقل کیا جاتا ہے۔برسوں کے دوران، ڈل جھیل کے ارد گرد کم از کم سات سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس (STPs) قائم کیے گئے، لیکن جہلم کے لیے گھروں، ہوٹلوں اور ہاؤس بوٹس سے نکلنے والے سیوریج کو بغیر ٹریٹمنٹ کے اس میں پھینکنے کے لیے کوئی بھی نہیں ہے۔سرکاری اعدا د وشمار کے مطابق سرینگر شہر سے ہر ماہ 13000میٹرک ٹن ٹھوس فضلہ نکلتا ہے جو یومیہ 450میٹرک ٹن تک ہوتا ہے۔زرعی یونیورسٹی میں جیو گرافی اور ڈزاسٹر منیجمنٹ کے سربراہ پروفیسر پرویز احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ شہر سرینگر کے علاوہ اننت ناگ، پلوامہ ، کولگام،بڈگام، سرینگر، گاندربل اور بارہمولہ اضلاع کے ان علاقوں سے تقریباً سارا فضلہ دریائے جہلم میں چلا جاتا ہے جو دیہات جہلم کے دونوں کناروں پر واقع ہیں، یا بیچ میں جو چھوٹی ندیاں جہلم کیساتھ ملتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ شہر میں جو فضلہ نکلتا ہے اسکاآدھا ہی اچھن میں ضائع کرنے کی سائٹ پر چلا جاتا ہے جبکہ باقی جہلم اور دیگر آبی ذخائر میں ڈالا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پالی تھین اور پلاسٹ لگ بھگ 3میٹرک ٹن دریائے جہلم میں روزانہ کی بنیاد پر چلاجاتا ہے۔انکا کہنا ہے کہ صرف 62 فیصد فضلہ ہی ٹھکانے لگایا جاتا ہے جس میں صرف7فیصد پلاسٹک یا پالی تھین ہوتا ہے جبکہ اس سے کئی گناہ زیادہ پالی تھین اور پلاسٹ دریائے جہلم میں ڈالا جاتا ہے۔سرینگر میونسپل حکام کا کہنا ہے کہ شہر میں 520ٹھوس فضلہ جمع کرنے کے مقامات ہیں جہاں ہر روز میونسپل کی گاڑیاں اس فضلہ کو اٹھاتی ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ شہر کے ہر ایک پل کے نیچے لوگوں نے ڈمپنگ مقامات بنائے ہیں۔ جہاں سب سے زیادہ پالی تھین ڈالا جاتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ شہر کی آبادہ 13لاکھ سے زیادہ تک پہنچ گئی ہے اور پچھلے 15برسوں میں شہر سے ہر صبح نکلنے والے ٹھوس فضلہ کی تعداد میں3گنا اضافہ ہوا ہے۔