عظمیٰ نیوز سروس
نئی دہلی//لوک سبھا نے مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے بجٹ کو صوتی ووٹ سے منظور کیا۔ ایوان سے متعلقہ تخصیصی بل بھی منظور کر لیے گئے۔اس موقعہ پروزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی حکومت نے جموں کشمیر کو ماضی کے مالی خسارے سے آزادی دلائی ہے، جس کی وجہ سے مرکزی زیر انتظام علاقے میں بیروزگاری کی شرح محض 3فیصد تک رہ گئی ہے۔
بجٹ پر ہوئی بحث کا جواب دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے جموں کشمیر کے بارے میں خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا”ہم نے اس سال جموں اور کشمیر کیلئے، مرکزی بجٹ میں 17,000 کروڑ روپے کی کافی مالی مدد فراہم کی ہے۔ اس میں جموں و کشمیر پولیس کے اخراجات کے لیے 12,000 کروڑ روپے شامل ہیں، یہ وہ بوجھ ہے جسے ہم اپنے کندھوں پر اٹھانا چاہتے ہیں، تاکہ جموں و کشمیر کو ترقیاتی سرگرمیوں پر پیسہ خرچ کرنے کے لیے زیادہ مواقع ملیں‘‘۔ نرملا سیتارامن نے لوک سبھا میں کہا’’میں نے 24-25 کا جموں و کشمیر کابجٹ پیش کیا تھا، مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ مرکزی زیر انتظام علاقے کو ماضی کی رایات یعنی مالی پریشانیوں کی میراث حاصل تھی، جس پر قابو پانے کے قابل بنانے کے لیے جو ٹھوس اقدامات کیے گئے ۔ جو اس وقت کی ریاست میں اسے وراثت میں ملی تھی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ مرکز نے یوٹی کو کافی مالی امداد فراہم کی ہے۔انکا کہنا تھا کہ اس سال کے یو ٹی بجٹ کے لیے 17 ہزار کروڑ دیئے گئے،تاکہ یہ رقم ترقیاتی کاموں پر خرچ کی جائے اوراس میں پولیس کے لیے 12000 کروڑ شامل ہیں، جو مرکز براہ راست ادا کریگا۔انکا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ مرکزی امداد کے طور پراضافی 5000 کروڑ روپے فراہم کیے گئے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اس تعاون سے میں توقع کرتی ہوں کہ یوٹی کامالی خسارہ کچھ 3% ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ یوٹی کے مالیات اب واپسی پر ہیں، اور وہ اب پہلے سے کہیں زیادہ ترقیاتی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں ، کیونکہ مالیاتی سمجھداری سب سے بڑی روح ہے جس میں سب کا ساتھ سب کا وکاس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ کچھ اراکین پارلیمنٹ میاں الطاف احمد اور آغا روح اللہ نے جموں و کشمیر میں بیروزگاری کی شرح پر کچھ سوالات اٹھائے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ جموں کشمیر میں بے روزگاری کی شرح 15-.59 کی عمر میں دراصل20-21میں 6.4فیصد، 21-22 میں 5.7% اورجو 22-23 میں 4% پر آ گئی ہے۔انکا کہنا تھا کہ بے روزگاری کی شرح میں کمی ہے، یہ کمی بنیادی طور پر اس وجہ سے ہے کہ خود روزگار کے لیے بہت سارے مواقع پیدا کیے گئے ہیں اور حکومت ہند کی سکیموں کے ذریعے تمام لوگوں تک رسائی حاصل کی گئی ہے جس کے نتیجے میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ خود روزگار کے لئے روزگار کے مواقع درحقیقت تیار ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا قبائل، خانہ بدوشوں اور بکروالوں کی بہبود کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ صحت کی دیکھ بھال، تعلیم، ثقافت، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، اور زندہ رہنے کے شعبوں میں2 دہائیوں کے بعد قبائلیوں کو جنگلات کے حقوق دیے گئے،۔