سرینگر//وادی میں 2014میں آئے تباہ کن سیلاب کے چھ سال مکمل ہونے پر کشمیر ٹریڈ الائنس نے کہا کہ کشمیر میں تجارتی سرگرمیوں میں تنزلی اور معیشت میں بگاڑ کا جو سلسلہ اُس وقت شروع ہوا،اس کے نہ تھمنے کا سلسلہ 2020میں بھی جاری ہے۔ٹریڈ الائنس کے صدر اعجاز شہدار نے کہا کہ2014کے تباہ کن سیلاب کے دوران وادی کی معیشت کو قریب ایک ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا،اور کاروباری و تجارتی حلقوں کو اس سیلاب نے بڑا ایک دھچکہ دیا،جس کے چھ سال گزر جانے کے بعد بھی اب تک کاروبار سنبھل نہ سکا۔شہدار نے کہا کہ2014کے بعد تجارت اور معیشت کو بار بار اور مسلسل کئی اور جھٹکے بھی لگے،جس کی وجہ سے کشمیر کے تاجر،کاروباری،صنعت کار،ٹرانسپورٹر اور تعمیراتی ٹھیکیداروں کے علاوہ یہاں کی سیاحت پر گرہن لگ گیا۔انہوں نے کہا کہ اُس وقت کی ریاستی اور مرکزی حکومت سے تجارت کو بحال کرنے کیلئے جو امیدیں وابستہ بھی تھیں، وہ بھی سراب ثابت ہوئیںاور چھ سال گزر جانے کے باوجود بھی تاجروں اور کاروبای حلقوں کی بحالی کیلئے نا ہی کسی جامع پیکیج کا اعلان کیا گیا اور نا ہی کوئی دوسری راحت دی گئی۔کشمیر ٹریڈ الائنس کے صدر نے کہا کہ جس راحت اور با ز آبادکاری کے دعوئے کئے گئے وہ کاغذات تک ہی محدود رہیںاور اگر کچھ دیا گیا تو وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر تھا۔ شہدار نے کہا کہ یہی نہیں بلکہ مابعد برسوں کے حالات اور پھر5اگست2019کے مابعد صورتحال اور اب کووِڈ- 19کے نتیجے میں گزشتہ6ماہ سے مسلسل لاک ڈائون نے کشمیری تاجروں،دکانداروں اور کاروباریوں کی کمر ہی توڑ دی۔ان کا کہنا تھا کہ5اگست2019کے بعد کشمیری کاروبار کو قریب45ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا،جس کا سلسلہ جاری ہے،تاہم سنجیدگی کے ساتھ تاجروں کو اس بھنور سے باہر نکالنے کیلئے کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ لیفٹنٹ گورنر کی سربراہی والی انتظامیہ اور مرکزی حکومت ٹھوس اور سنجیدہ کوشش کرکے کشمیری تاجروں کی راحت کیلئے سامنے آئیں گی۔اس دوران انہوں نے ریٹیلرس ایسو سی ایشن آف انڈیا کی جانب سے ہفتے میں7 روز تک کاروباری سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی اجازت دینے کی بھی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وادی کے خریداروں میں قوت خریدراری ختم ہوچکی ہے،اس لئے دکانوں پر گاہکوں کی بھیڑ نا ہونے کے برابر ہوتی ہے۔انہوں نے فوری طور پر مکمل ہفتہ کاروباری بحالی کی وکالت کی۔