عظمیٰ نیوزسروس
جموں//اپنی پارٹی کے سربراہ سید محمد الطاف بخاری نے مرکزی سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جموں کشمیر کے بے روزگار نوجوانوں کو ماہانہ الاؤنس کی فراہمی کے لیے مالیاتی پیکج فراہم کرے تاکہ انہیں روزگار کے حصول تک کچھ ریلیف دیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے یہاں ساڑھے سات لاکھ بے روزگار نوجوان ہیں، جن میں زیادہ تر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ شامل ہیں، ان نوجوانوں کو ماہانہ بیس ہزار روپے تک کا الاونس دیا جانا چاہیے۔‘‘انہوں نے یہ باتیں جموں میں پارٹی کے ایک اہم اجلاس کے بعد صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہیں۔اپنی پارٹی کے صدر نے مرکزی حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ موجودہ معاشی حالات اور یونین ٹیریٹری کو درپیش مالی چیلنجوں کے تناظر میں جموں و کشمیر کی گرانٹ کو دوگنا کرے۔انہوں نے کہا، ’’جموں کشمیر کے آبی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے مقدار میں بجلی پیدا کی جا تی ہے، لیکن یہاں کے لوگوں کو اس کا بہت کم فائدہ ملتا ہے۔ اس کے علاوہ، ہم مشکل معاشی حالات سے دوچار ہیں۔ ان صورتحال کے تناظر میں، مرکزی حکومت کو جموں و کشمیر کی گرانٹ کو دوگنا کرنا چاہیے۔‘‘ سید محمد الطاف بخاری نے مرکزی حکومت سے جموں و کشمیر میں ٹنلوں کی مجوزہ تعمیر کے لیے فنڈز مختص کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔انہوں نے کہا، ’’مرکز کو مجوزہ ٹنل پروجیکٹوں بشمول سادھنا ٹاپ اور گریز-بانڈی پورہ، وائیلو-کشتواڑ اور تاریخی مغل روڈ ٹنلوں کی تعمیر کے لیے فنڈز مختص کرنے چاہئیں۔ان ٹنلوں کی تعمیر سے یہاں کے مختلف خطوں کے درمیان قابل اعتماد سڑک رابطے یقینی بن جائیں گے اور جموں و کشمیر کے دور دراز علاقوں تک ہر موسم تک رسائی ممکن ہوگی۔‘‘حکومت کی کارکردگی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بخاری نے کہا، ’’ہم اس حکومت کی کارکردگی کو اتنی جلدی پرکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ حکومت خود اعتراف کرتی ہے کہ وہ کچھ خاص ڈیلور نہیں کرپارہی ہے۔ تاہم میں حکومت کی اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتا کہ طاقت کے دو مراکز ہونے کی وجہ سے حکومت کی کارکردگی میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے۔‘‘ان کا کہنا تھا، ’’ہر کوئی پہلے سے ہی جانتا تھا کہ یونین ٹریٹری میں کپتان دراصل لیفٹنٹ گورنر ہیں۔ یہ انتخابات تو نائب کپتان ( وزیر اعلیٰ) کے عہدے کیلئے کئے گئے۔ اس لئے کسی کو بھی یہاں طاقت کے دو مراکز ہونے کی شکایت نہیں کرنی چاہیے۔ یہ تو سب کو پتہ ہی تھا کہ یونین ٹریٹری میں یہی نظام ہوتا ہے۔ حکومت کو شکایت کرنے کے بجائے کپتان (لیفٹنٹ گورنر) کے ساتھ مل کر عوامی خدمت میں جھْٹ جانا چاہیے۔‘‘انہوںنے یہ بھی کہا کہ ’’حکمران جماعت نے اپنے انتخابی منشور میں یہ دعویٰ کرکے ووٹ حاصل کئے ہیں کہ وہ دو لاکھ سرکاری نوکریاں فراہم کرے گی، نظر بندوں کی رہائی کو یقینی بنائے گی، جموں و کشمیر کے معدنی وسائل کی حفاظت کرے گی، ڈیلی ویجروں کو مستقل کرے گی، راشن کوٹہ کو دوگنا کرے گی اور اس کے علاوہ بھی بہت سارے وعدے کئے گئے۔ اب حکومت قائم ہوجانے کے بعد وہ اپنے وعدوں سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔‘‘مجوزہ وقف ترمیمی بل کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بخاری نے کہا، ’’یہ ایک سیکولر ملک ہے۔ آئین کہتا ہے کہ مذہبی اداروں میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ جہاں تک وقف املاک کے نظم و نسق کو بہتر بنانے کی بات ہے، ہم اس کی حمایت کرتے ہیں لیکن مذہبی اداروں کو متعلقہ کمونٹی کے ذمہ داروں کی نگرانی میں ہونا چاہیے نہ کہ حکومت کی تحویل میں‘‘.