ہندوستانی سیاست کو ایک نیا موڑ دینے والی خبر یوں بے توجہی کا شکا ر ہوئی جیسے اس کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔کچھ عوامل ایسے تھے جنہوں نے اِس بے توجہی کو ہوا دینے میں ایک اہم رول ادا کیا۔کچھ تو مشیت ِایزدی تھی لیکن کچھ انسانی کارنامے بھی کہلا سکتے ہیں جنہوں نے اتنے اہم واقعے کومتاثر کیا۔ہندوستان کی فلم اداکارہ سری دیوی کی ناگہانی موت نے اس واقعے کے نتائج کو بستے میں ڈالے رکھا تو سی بی آئی کے ذریعے کارتِک پی چدمبرن کومبینہ ۳۰۰؍کروڑ روپے کے لین دین کی پوچھ تاچھ کے لئے پہلے ایک دن اور پھر ۵؍دن کی تحویل میں لے لینے پر اُس واقعے کو تقریباًسرد کر دیا اور ٹی وی والے حتیٰ کہ پرنٹ میڈیا نے بھی اِنہی دو خبروں کو اہمیت اور اولیت دی۔
سری دیوی کی موت کی خبر سے لے کر اُن کے انتم سنسکار تک برقی میڈیا نے چوبیسوں گھنٹے اپنے فرائض کی انجام دہی میں انتہائی چستی دکھائی، وہیں شام میں ہونے والی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں سینکڑوں انسانوں کی ہلاکت پر ایک لفظ بھی کہنا گوارہ نہیں کیا۔سوشل میڈیا پر یہ سوالات بھی اُٹھائے گئے کہ شراب کے زیر اثر باتھ ٹب میں دم گھٹنے سے ہونے والی اداکارہ کی موت کے بعد جس طرح سے اُنہیں سرکاری اعزازکے ساتھ ترنگے میں لپیٹ کر توپوں کی سلامی دی گئی وہ ملک اور ترنگے کی توہین سے کم نہیں۔یہ اور بات ہے کہ اُنہیں ملک کے ایک اعلیٰ اعزاز ’’پدم شری‘‘ سے نوازا گیا تھا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی سرکاری اعزاز مل جانے کے بعد کوئی شخص اگر کسی ’’مانع فعل‘‘ میں بعد کے دنوں میں مبتلا رہے تو کیا مرنے کے بعد سرکاری اعزاز کا اُسے مستحق قرار دیا جا سکتا ہے؟یاد کریں کہ صرف چند برسوں پہلے ہی ہجومی تشدد کے شکار دادری کے محمد اخلاق کے قاتل کی جیل میں ڈینگو سے موت سرزد ہو جانے کے بعد اُس کو اور اُس کی ارتھی کوبھی ترنگے میں لپیٹ کر اُس کا انتم سنسکار کیا گیا تھا اور اُس وقت کی اکھلیش حکومت اور نہ ہی مودی حکومت اسے روک سکی تھی ۔کچھ دنوں پہلے ہی کشمیر میں عصمت دری کے ایک ملزم پولیس اہل کار کو رہا کروانے کے لئے وہاں کے مقامی افراد’’ بھارت ماتا کی جے اوروندے ماترم ‘‘ کا نعرہ ترنگا کے سائے میں لگاتے رہے۔اگر کسی ملزم کو رہا کرانے کے لئے مسلمانوں کی جانب سے اس طرح کا کوئی احتجاج کیا جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملزم اور احتجاجیوں کے ساتھ حکومت اور پولیس کا کیا رویہ ہوگا!
اب آتے ہیں اُس خبر کی طرف جس کا ذکر ہو رہا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ مدھیہ پردیش اور اُدیسہ میں ضمنی انتخابات میں اگر بی جے پی تینوں سیٹیںجیت لیتیں تو کیا میڈیا کے انداز وہی ہوتے جو بی جے پی کے ہار جانے کے بعد رہے؟کیا سری دیوی کی موت کی خبر دوسرے اور کارتی تیسرے نمبر پر نہیں چلے جاتے؟بے شک ایسا ہی ہوتا لیکن مدھیہ پردیش کی دونوں اسمبلی سیٹوں کو کانگریس نے برقرار رکھا اور بیجو جنتا دل نے ایک چال کے تحت (جس پر آگے بات ہوگی) ہی بیجے پوراسمبلی سیٹ پر قبضہ جما لیا تو ٹی وی والوں کے لئے یہ اہم خبر نہیں رہی کیوں یہ بی جے پی کی بُری طرح ہار ہوئی ہے جو اس بات کا پیش خیمہ ہے کہ کس طرح آہستہ آہستہ بی جے پی اپنی زمین کھوتی جا رہی ہے۔ایسا پورے ملک میں ہو رہا ہے لیکن میڈیا ایسا بتلا نہیں رہا ہے۔بہر کیف مدھیہ پردیش میں ہونے والے ۲؍ اسمبلی سیٹوںکے ضمنی انتخابات پر ایک نظر دوڑائی جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ چوان سمیت ۱۸؍ کابینی وزیروں نے دن رات ایک کر دئے تھے۔خود وزیر اعلیٰ نے تقریباً ۴۰؍ ریلیاں کیں اور ۱۰؍ کے قریب روڈ شوز کئے۔یہاں تک کہ اِس سے بھی پیٹ نہیں بھرا تو جیوترادیہ سندھیا کی پھوپھی اور راجستھان کی موجودہ وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا کو مہم کے لئے میدان میں اُتارا جو ابھی حال ہی میں ضمنی انتخابات میںراجستھان میںلوک سبھا کی ایک اوراسمبلی کی ۲؍نشستیں گنوا بیٹھی ہیں۔یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ جیوترادیہ سندھیا اور اُن کے آنجہانی والدمادھوراؤ سندھیا سے محترمہ کس طرح کا پُر خاش رکھتی ہیں۔مطلب بھاجپا نے ہر حربہ آزمایا کہ کسی طرح بلکہ ہر قیمت پر مُنگولی اور کولارس اسمبلی کی سیٹوں کو کانگریس سے چھین لیاجائے جو اتفاق سے نوجوان کا نگریسی لیڈر جیوترادیہ سندھیا کی ’گونا ‘ لوک سبھا حلقے میں ہی آتی ہیں ۔اِس کا سیدھا مطلب یہ بھی تھا کہ اگر کانگریس کی ہار ہو جاتی ہے تو در اصل یہ جیوترا کی ہار ہوتی اور نفسیاتی طور پر اِس کا فائدہ چند ہی مہینوں بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو ہوتا ع اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا۔ جب رپورٹروں نے وزیر اعلیٰ چوان سے پوچھا تو انہوں نے کس ڈھٹائی سے جواب دیا ،ملاحظہ کریں۔انہوں نے کہا کہ ’’ یہ ہار ہماری حکومت کے لئے کوئی ریفرنڈم نہیں ہے اور اِس کا اثر ہونے والے اسمبلی الیکشن پر نہیں پڑے گا۔ ہم ترقی کے ایجنڈے پر ایک بار پھر سے جیت کر آئیں گے۔‘‘ کوئی اِن سے پوچھے کہ اتنے دنوں تک پھر اُن دونوں جگہوں پر آپ کیا کرا رہے تھے؟ یہ بی جے پی والے بولنے میں بڑے ماہر ہیں اور سچ پوچھئے تو یہ بولنے کا ہی کھا رہے ہیں۔ایک بات آپ نے غور کی ہوگی کہ ایسے ہونے والے تمام ضمنی انتخابات میں مودی صاحب جان بوجھ کر نہیں جا رہے ہیں کیونکہ اِن کا تو وطیرہ رہا ہے کہ ان کا بس چلے تو میونسپلٹی کے الیکشن میں بھی پر چار کے لئے پہنچ جائیں۔مجھے تو یاد نہیں آرہا ہے ،ممکن ہے کہ پہنچے بھی ہوں۔ خیراِنہیں سُدھ بُدھ ہو گیا ہے کہ اُن جگہوں پر اِن کی مٹی پلید ہونے والی ہے تو کیوں نہ اِس کا ٹھیکرابھی وہیں کے وزراء اعلیٰ کے سر پھوڑا جائے۔ورنہ خواہ مخواہ ان کی پاپولرٹی ( شہرت) میں سیندھ لگے گی ۔اِن کو شاید اِس بات کا اندازہ نہیں کہ اِن کی شہرت میں سیندھ لگ چکی ہے۔راجستھان اور مدھیہ پردیش کو اِن کے ہاتھ سے نکل جانے سے کوئی روک نہیں سکتا اور اس کے اثرات ۲۰۱۹ء کے عام چناؤ پر نہیں پڑیں گے، ایسا ایک دیوانہ ہی کہہ سکتا ہے۔
اب تھوڑی اُدیسہ کی بات بھی ہو جائے جہاں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں نوین پٹنائک کی پارٹی کے امیدوار ریتا رانی ساہو نے تقریباً ۴۲؍ہزار ووٹوں سے بی جے پی کے امیدوار اشوک پنی گرھی کو ہرا دیا ۔کانگریس کے لئے لمحۂ فکر کا مقام ہے کیونکہ یہ سیٹ لگاتار ۳؍ مدتوں (اسمبلیوں) سے کانگریس کے سوبَل ساہو جیتتے آئے تھے اور ستمبر ۲۰۱۷ء میں اُن کی موت کے بعد اُن کی بیوہ ریتا ساہو کو بی جے ڈی میں شامل کر لینے میں نوین پٹنائک کامیاب ہو گئے تھے اور کانگریس منہ تاکتی رہ گئی تھی۔ظاہر ہے کہ ہمدردی کی لہر نے ریتا کو جیت دلوا دی ۔ممکن ہے کہ اِس میں کوئی بہت بڑا رول نوین پٹنائک کا نہیں رہا ہو لیکن کانگریس اپنے رینک اینڈ فائل کو یکجُٹ رکھنے میں کامیاب کیوں نہیں ہے؟ایک زمانہ تھا کہ اُدیسہ کانگریس کے پاس تھا جس کے مشہور لیڈر اور وزیر اعلیٰ جے بی پٹنائک تھے۔یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے۔ نوین اور اُن کے آنجہانی والد بیجو پٹنائک سے پہلے کی بات ہے اور بیجو پٹنائک بھی تو مدتوں کانگریس میں رہے۔اس لئے راہل گاندھی کو یہ سوچنا چاہئے کہ اُدیسہ یا یوپی یا بہار میں ایک سچن پائلٹ یا ایک جیوترا سندھیا یا ایک کیپٹن امرندر سنگھ یاایک سدا رمیا کیوں نہیں ہے؟ کیونکہ جہاں جہاں ایسے لوگ ہیں وہاں کانگریس کا مستقبل روشن ہے ۔چونکہ اُدیسہ میں نوین پٹنائک کو کانگریس سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور جو بھی خطرہ ہے وہ بی جے پی سے وہ محسوس کرتے ہیں اور اسی لئے حکمت عملی کے تحت اُنہوں نے بی جے پی کو پٹخنی دے دی کیونکہ چند ماہ قبل ہوئے اُدیسہ کے بار گاہ ضلع کے تمام پنچایت الیکشن میں بی جے پی نے یکطرفہ بازی مار لی تھی اور ایک طرح سے بی جے ڈی کا وہاں صفایا ہو گیا تھا۔مزے کی بات یہ ہے کہ یہ بیجے پور اسمبلی سیٹ اُسی بارگاہ ضلع میں آتی ہے جہاں پر بی جے ڈی نے بی جے پی کو ہزیمت سے دو چار کیا ہے ۔ایک طرح سے اپنی ہار کا بہت جلدی بدلہ لے لیا ہے جس سے بی جے ڈی کے کیڈر ایک نئے جوش اور توانائی کے ساتھ میدان میں آگئے ہیں اور اِس کا فائدہ یقینی طور ایک ساتھ ہونے والے ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا اور اسمبلی الیکشن میں بی جے ڈی کو ہی ہوگا اور یہ طے ہے کہ بی جے ڈی ، بی جے پی کا الائنس پارٹنر نہیں بنے گا۔یہ اندازہ ہو گیا ہوگا کہ یہ نتائج کس قدر اہم تھے جسے قومی میڈیا نے اِس لئے نظر انداز کیا کہ اِس سے بی جے پی کو نقصان ہو سکتا ہے اور میڈیا ایسا کوئی بھی کام نہیں کرنا چاہتا جس سے بی جے پی نیز مودی جی کو نقصان اُٹھانا پڑے۔ سی بی آئی کے ذریعے کارتک چدمبرن کی گرفتاری کو ہائی پروفائل بنا کر پیش کرنے کا بھی یہی جواز ہے اور جسے میڈیا بھی بھرپور کوریج دے رہا ہے کہ نیروَ مودی کے گھپلے کو نرم کیا جا سکے بلکہ کوشش تو یہ ہے کہ اُس گھپلے کو بھی جلد از جلد دفن کیا جا ئے کیونکہ مودی جی کو ’سر نیم‘ کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہے۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ، نئی ممبئی کے مدیر ہیں؛رابطہ9833999883