حیدرآباد// مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سکریٹری مسلم پرسنل لا بورڈ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کا کیس ملکیت کی بنیاد پر طے ہوگا نہ کہ آستھا اور عقیدہ کی بنیاد پر، بہت اہم ہے ، اور بورڈکا شروع سے یہی موقف رہا ہے کہ اس مقدمہ کا فیصلہ ملکیت کی بنیاد پر ہونا چاہئے کہ یہ سنی وقف بورڈ اتر پردیش کی ملکیت ہے یا ان لوگوں کی جو اس کے رام جنم بھومی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں؟ کیوں کہ کورٹ کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ مقدس شخصیتوں کی جائے پیدائش کو طے کرے ، اور خود ہندو مذہبی کتابوں میں اس جگہ کے رام جنم بھومی ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے ، اور نہ تاریخ سے اس کا کوئی ثبوت ہے ؛ لیکن بہر حال عدالت کو اس پیچیدگی میں نہیں پڑنا چاہئے اور سرکاری ریکارڈکی روشنی میں یہ بات طے کرنی چاہئے کہ یہ سنی وقف بورڈ کی ملکیت ہے یا نہیں؟ اور بورڈ کو پوری امید ہے کہ اگر عدالت اس نکتہ پر اپنی توجہ مرکوز رکھے گی تو فیصلہ ہمارے موقف کے مطابق آئے گا۔سپریم کورٹ نے کل ایک اور کیس میں قانون تعزیرات ہند دفعہ 497اور دفعہ 198کو کالعدم قرار دے دیا ہے ، ہندوستان جیسے ملک میں جہاں ہمیشہ سے مذہب اور اخلاقی اقدار پر یقین رکھنے والوں کی اکثریت رہی ہے ۔اس طرح کا فیصلہ ملک کی تہذیب اور یہاں کی متفقہ اخلاقی قدروں کے خلاف ہے ، اس دفعہ کو ختم کرنے کی وجہ سے اب شادی شدہ عورت یا مردکا دوسرے مرد یا دوسری عورت سے جنسی تعلق قائم کر نا قانون کی نظر میں جرم نہیں ہے ۔ یہ فیصلہ بڑھتی ہوئی اخلاقی بے راہ روی کو اور بڑھا دے گا، اس کی وجہ سے نکاح کے رشتے کمزور ہوں گے ، خاندانی نظام بکھر کر رہ جائے گا، اور اندیشہ ہے کہ یہ بددل شوہر اور بیوی کی طرف سے مجرمانہ واقعات میں اضافہ کا سبب بنے گا؛ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ قانون سازی کے ذریعہ اس فیصلے کو بے اثر کر دے ، اور سماج کے چند آوارہ خیال لوگوں کی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے پورے سماج کے جذبات کا قتل نہیں کیا جائے۔