ڈاکٹر اقبال احمد
اردو ہندوستانی زبان ہے ۔اس کا خمیر ہندو اور مسلمانوں کے صدیوں کے میل جول اور باہمی تعلقات سے تیار ہوا ہے۔اس کی آبیاری میں ملک کے تمام طبقوں نے بلالحاظ مذہب و ملت، رنگ و نسل اور فکر و نظر اپنا خون صرف کیا ہے۔ اسے پروان چڑھانے،سنوارنے، نکھارنے اور مکمل زبان بنانے میں تمام ہندوستانیوں نے ذہنی اور علاقائی حد بندیوں سے اوپر اٹھ کر مخلصانہ خدمت کرتے ہوئے اپنی زندگیاں کھپائی ہیں اور اسے عروس نو بہار اورسدا سہاگن بنائے رکھنے میں جو بھی ممکن ہوسکا وہ انجام دیا ہے۔
جو یہ ہندوستاں نہیں ہوتا تویہ اردو زبان نہیں ہوتی
زبانیں بھی انسانوں کی طرح سفر کرتی ہیں اور اس وقت ہم اکیسویں صدی کی دو دہائیاں گزار کر تیسری دہائی میں قدم رکھ چکے ہیں۔دیگر زبانوں کے ساتھ اردو زبان بھی ہمارے ساتھ سفر پر رواں ہے۔ ہمیں سب سے پہلے اس مسئلے پر غور کرنا ہوگا کہ بیسویں صدی کے خاتمے تک اردو زبان نے ترقی کی کون کون سی منزلیں سر کی ہیں۔ ظاہر ہے کہ 21ویں صدی خلاء میں نہیں پیدا ہوئی۔اسے بیسویں صدی نے جنم دیا ہے۔ ہمارے لئے بیسویں صدی تاریخ کی سب سے پر تشدد اور پریشان کن صدی تھی ۔اس صدی کے دوران ہم نے بہت خواب دیکھے اور خوابوں کی پامالی کا ایک ہولناک تماشا بھی دیکھا ۔اس صدی کے دوران ہم نے بہت کچھ کھویا اور شاید بہت کم پایا ہو گا۔ ہمیں آزادی بھی ملی تو خون میں نہائی ہوئی اور تقسیم ملک کی شکل میں انسانی تاریخ کی ہجرتوں میں ایک سب سے بڑا اجتماعی ہجرت کا تجربہ بھی ہمارے حصے میں آیاجس نے اردو کے لیے نئی مشکل پیدا کر دی تھی۔ تقسیم کے بعد اردو مسلمانوں کی زبان قرار دی گئی ۔اس زبان کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا مگرآزادی کے بعداس کی جگہ ہندی زبان نے لے لی ۔ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہی نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں رہنے والے تمام مذاہب کے لوگوں نے اس کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔بقول صدا انبالوی
اپنی اردو تو محبت کی زبان تھی پیارے
اف سیاست نے اسے جوڑ دیا مذہب سے
ہندوستان کی دیگر زبانوں جیسے بنگالی ،ملیالم ،گجراتی ،سندھی ،ہندی اور پنجابی وغیرہ میں کافی بلند پایہ مسلم قلمکار گزرے ہیں اور عصر حاضر میں بھی ان زبانوں کو اپنے قلمی نگارشات سے مالا مال کر رہے ہیں۔اسی طرح مختلف مذاہب کے قلم کاروں نے اردو زبان و ادب کے فروغ میں کافی کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔بیسویں صدی میں اردو زبان میں ترقی کے کافی مراحل طے کر لیے تھے ۔اردو کے ان گنت قلمکاروں نے اس صدی میں جنم لیا اور اردو کے فروغ میں اپنی خدمات پیش کیں ۔
اکیسویں صدی سائنس اور ٹکنالوجی کی صدی ہے ۔جدید ایجادات اور جدید دریافتوں کے سبب روز نئے نئے انکشافات ہورہے ہیں اور رہتی دنیا تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔جو چیز آج انسان کی ضرورت ہے ممکن ہے کل وہ بے کار ہو جائے اور کوئی دوسری شئے اس کی جگہ لے لے۔آج کی دنیا اور زندگی میں آج سے پچیس،پچاس یا سو برس قبل کی دنیا میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ ظاہر ہے کہ جب زندگی جینے کے طور طریقوں میں تبدیلی رونما ہوگی تو اس انقلاب سے اس کی تہذیب اور زبان بھی لازمی طور پر متاثر ہوگی۔اس لیے اکیسویں صدی میں اردو زبان و ادب کے سامنے بھی ایک بڑا چیلنج ہے کہ آخر اردو زبان کس طرح بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرے۔ اب دنیا ایک بازار بن گئی ہے اور ہر میدان میں مقابلہ بڑھ گیا ہے ۔زبان و ادب میں بھی تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب زندگی جینے کے طور طریقے بدل رہے ہیں تو ہمارے وسیلہ اظہار خیال یعنی زبان اور زندگی کا آئینہ ادب میں بھی ہماری تصویر بدلے گی اور ضرور بدلے گی یہ ایک فطری عمل ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عالمی گاؤں کے پھیلتے ہوئے بازار میں چند زبانوں کی اجارہ داری قائم ہو رہی ہے۔علاقائی زبانوں کے ساتھ ساتھ کئی بڑی زبانوں کے وجود کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ایک اندازے کے مطابق 21 ویں صدی میں دنیا کی 90 فیصد زبانیں اور بولیاں ختم ہو سکتی ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں بولی جانے والی سات ہزار زبانوں میں سے پچیس سو سے زیادہ زبانیں اپنا وجود کھونے والی ہیں۔ 234 زبانیں ختم ہو چکی ہیں اور 3340 زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والوں کی تعداد دس ہزار سے بھی کم ہے۔ کچھ ماہرین لسانیات اس حقیقت کو تسلیم کرچکے ہیں کہ 21 ویں صدی کے آخر تک پوری دنیا میں صرف ایک درجن زبانیں زندہ رہ پائیںگی۔
گلوبلائزیشن اور اربنائز یشن کی وجہ سے پوری دنیا میں انگریزی زبان کو رابطے کی زبان کے طورمسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس کا اثر بھی ہوگیا ہے ۔اس دور میں سائنس کی ہر نئی ایجاد کا نام انگریزی لفظ ہی متعارف کرایا جاتا ہے جیسے ریفریجریٹر،ٹیلی ویژن، موبائل، انٹرنیٹ اور کمپیوٹر وغیرہ ۔جتنی بھی جدید اشیاء ہمارے روزمرہ کی ضرورت کا حصہ بنی ہیں ان سب نے ہماری بول چال کی زبان میں انگریزی کے الفاظ داخل کر دیے ہیں۔دنیا کے جن ممالک میں زبانیں تیزی سے فوت ہو رہی ہیں ،ہماری خوش بختی ہے کہ ان میں ہمارا ملک شامل نہیں ہے۔لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جتنی قوت سے ہماری زبانیں ماضی میں رائج تھیں آج بھی ہیں۔جو شکوہ اہل اردو کو اردو کے تعلق سے ہے کہ اردو معاشرہ اور زبان کا معیار زوال پذیر ہو رہا ہے یہی شکوہ ہندوستان کی دوسری زبانوں کے لوگوں کو بھی اپنی زبان سے ہے۔ لیکن جس طرح زبانیں ایک دم وجود میں نہیں آتیں اسی طرح دیکھتے دیکھتے فوت بھی نہیں ہوتیں۔جو زبانیں لکھی، پڑھی اور بولی جاتی ہیں وہ زندہ ہیں۔مگر معیار متاثر ہوا ہے زبانیں خراب ہوتی چلی جارہی ہیں۔ کئی ایسے خاندان ہیں جنہیں اپنی زبانوں پر ناز تھا مگر آج ان کی نسل اس زبان سے نابلد ہے اور انگریزی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔بقولِ شاعر
میری اللہ سے بس اتنی دعا ہے راشدؔ
میں جو اردو میں وصیت لکھوں بیٹاپڑھ لے
اردو سے ہو کیوں بیزارانگلش سے کیوں اتنا پیار
چھوڑو بھی یہ رٹا یار ٹونکل ٹونکل لٹل اسٹار
اہل اردو محسوس کرتے ہیں مسئلہ صرف اردو کا ہے مگر ایسا نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کی ان زبانوں کا مسئلہ بھی ہے جو عالمی سطح پر بولی جانے والی انگریزی زبان سے نبرد آزما ہیں۔
اردو ایک خوش قسمت زبان ہے ،اس کے بولنے اور سمجھنے والے نہ صرف ہندو پاک میں ہیں بلکہ دنیا کے تقریبا اکثر و بیشتر ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس کے فروغ میں ان ممالک میں ادارے بھی قائم کیے گئے ہیں ۔
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
اردو کی دلآویزی اور شیرینی نے ان لوگوں کو بھی اپنا دیوانہ اور شائقین بنا رکھا ہے جو اردو نہیں جانتے۔بقولِ شاعر
شہدوشکر سے شیریں اردو زباں ہماری
ہوتی ہے جس کے بولے میٹھی زباں ہماری
اس کی حالت دیگر متعدد زبانوں سے بہتر ہے۔ اگر اردو کے تحفظ، اس کی ترویج، نئی ٹکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے اور اسے روزگار سے جوڑنے کی کوشش ہر ممکن سطح پر نہیں کی گئی تو اس کا دائرہ جو محدود ہوتا چلا گیا ہے، محدود تر ہو جائے گا۔اس وقت اردو کی حالت اس مریض کی سی ہے جسے شافی غذا اور دوا میسر آجائے تو جی اٹھے گا لیکن اگر اس جانب غفلت برتی گئی تو اس کااس کا بقید حیات رہنا مشکل ہو جائے گا۔اس لیے کچھ ایسے کام کرنے ہونگے جس سے اردو کو جلا مل سکتی ہے۔
اردو کی تدریس کو بہتر بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ طلباء میں اردو کا شوق اور ذوق پیدا کیا جائے ۔الفاظ اور اشعار یاد کروائے جائیں ۔طلباء میں ایسا جذبہ پیدا کیا جائے کہ وہ اردو کے سپاہی بن جائیں۔ علاقائی سطح پر ایسی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو تعلیمی اداروں میں اردو کی درس و تدریس پر نگاہ رکھیں۔مشاعرہ کروائے جائیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ان میں میں شریک کیا جائے۔ جو لوگ اردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے مگر اس زبان سے محبت کرتے ہیں انہیں یہ زبان سکھائی جائے۔
اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے
وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئی
اردو ویب سائٹس، اردو بلاگ،اردو میل،اردو ای بک، اردو ای میگزین، ایسی سہولتیں میسر بھی ہیں مگر ایسی ہی اور جدید سہولتوں کو میسر کیا جائے۔ اردو کے نامور ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات کو کو نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے عام کیا جائے۔مندرجہ بالا چند سطور میں اردو زبان اور اس کے فروغ ،مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے خامہ فرسائی کی ہے۔ میں ان الفاظ میں اپنے مضمون کو ختم کرنا چاہتا ہوں کہ آج اردو کمپیوٹر کی زبان بن چکی ہے ۔اس میں سائنس ،تاریخ ،فلسفہ ،نفسیات، سیاسیات، معاشیات کے تمام خزینے موجود ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل ،جو اردو سے بیگانہ ہوتی جارہی ہے ،اس کو اردو کی تعلیم سے وابستہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے اور اگرہماری یہ کوشش کامیاب ہوتی ہے تو پھر اردو کا حال تابنا ک رہے گا اور مستقبل بھی قابل فخر ہوگا۔
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
رابطہ۔لیکچرار شعبہ اردوگاندھی میموریل کالج سرینگر۔190002
فون نمبر۔9682619937
ای میل۔[email protected]
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاًاپنی ہیں اور انہیںکسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)