ابراہیم آتش
اس بات کوہر کوئی تسلیم کرتاہے کہ ہر شخص کا تعار ف اس کے کردار سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی شخص ملنسار اور ہمدرد ہے ،تو لوگ کہتے ہیں فلاں شخص اچھی طبیعت کا مالک ہے، سب سے ملنساری سے ملتا ہے اور ہمدردی کا جذبہ ہے۔ اگر کوئی شخص جھگڑالو اور گالی گلوج کرتا ہے تو سب لوگ اس کا تعارف ایک جھگڑالوشخص کی حیثیت سے کرتے ہیںاور اس سے نفرت کرتے ہیں۔اگر کوئی شخص علم والا حکمت والا بصیرت والا ہے تو لوگ کہتے ہیں فلاں شخص بہت علم والا ہے اور اگر کوئی شخص ان پڑھ یا جاہل ہے تو اس کا تعارف ایک جاہل کی حیثیت سے کیا جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح ایک فرد کا تعار ف اس کے کردار سے کیا جاتا ہے، اسی طرح قوموں کا تعارف بھی ان کے کردار سے کیا جاتا ہے، جیسے چین کا تعارف وہاں کے جبر ی قانون کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ کیونکہ وہاں کی قوم جبری قانون کو اختیار کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔جاپان کا تعارف ان کی ٹیکنالوجی کی وجہ سے کیا جاتا ہے، پوری دنیا میں جاپان کی ٹیکنالوجی مشہور ہے۔ اگر اس کی ٹیکنالوجی بند ہو جائے تو دنیا کی آدھی صنعت ٹھپ ہو کر رہ جائے، راکٹ زمین سے اوپر نہیں اڑ پائے گا۔ اسی طرح اگر دیکھا جائے تومسلمانوں کا تعارف موجودہ زمانے میںایک جنگجو اور لڑاکو قوم کی حیثیت سے کیا جاتا ہے، کیونکہ مسلمان دنیا کے بیشتر حصوں میں کسی نہ کسی طرح جنگ میں ملوث پائے جاتے ہیں،چاہے وہ آزادی کے نام پر ہو یا اسلامی قانون نافذ کرنے کے نام پر، یا جمہوریت کی جدوجہد کے لئے ہو ،جنگی ہھتیار ہی ان کا سب سے بڑا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ افراد سے قوم بنتی ہے ،افراد جس قوم میں جیسے ہوں گے، وہ قوم اسی کے کردار سے جانی جائے گی۔ ایک مثال امیر المومنین کی ہے جو رات میں ایک صحابی کے ساتھ امت کے متعلق چراغ کی روشنی میں گفتگو کر رہے تھے ،امت سے ہٹ کرجب نجی گفتگو شروع ہوئی توفوراً امیرالمومنین نے چراغ کو بجھا دیا اور کہا اب تک چراغ کی روشنی میں امت کی گفتگو ہو رہی تھی، چراغ کا تیل بیت المال کا ہے، مسلمانوں کے بیت المال کی فکر اور اللہ کا خوف شاید ہی دنیا میں اس طرح کی مثال کہیں دیکھنے کو ملے۔ آپ کو خلافت کی ذمہ داریوں کا احساس بہت زیادہ تھا،فرمایا کر تے اگر ساحل فرات پر بھی کوئی اونٹ ضائع ہو جائے تو مجھے ڈر ہے کہ خدا کے ہاں اس کی جواب دہی ہوگی۔ اس لئے تو بابائے قوم گاندھی جی نے کہا تھا حکومت کرنا ہے تو عمر فاروقؓ جیسی ہو ،یہی کردار ہے جس سے تعارف ہوتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے توجاپانیوں میں اسلامی فطرت نظر آئے گی ،وہ لوگ عین اسلامی فطرت کے اصول پر زندگی گذارتے ہیں،ایماندار ہوتے ہیں،محنتی ہوتے ہیں،جنگ و جدال سے پرہیز کرتے ہیں،امن کے راستے پر چل کر ترقی کیلئے کوشش کرتے ہیں اور دنیا دیکھ رہی ہے، وہ کس قدر ترقی کر رہے ہیں۔اللہ تعالی اسلام کو بلکل انسانی فطرت کے مطابق ہمارے لئے پیش کیا ہے ،کاش دنیا کے مسلمان نا کام جنگی کوششوں کے بدلے امن اور ترقی کے راستے پر چل پڑیں توکچھ سالوں میں نہ سہی کچھ دہوں میں مسلمانوں کی شناخت دنیا کے سامنے بدل جائے گی اور اللہ کے قانون کے مطابق انھیں دنیا اور آخرت میں کامیابی ملے گی۔دنیا کے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا شخص اگر اسلامی فطرت کے مطابق زندگی گذارتا ہے تواس کے لئے اسلام کی دعوت بہت جاذب ہوگی ،شاید زباں کی بات دل میں اُتر جائے کیونکہ اس کا دل ایسے مذہب کا متمنی ہوگا۔ کچھ صدیوں سے ہم دنیا کواچھی حکومت دے کر یہ ثابت نہیں کر سکے کہ ہم اچھے حکمراں ہیں ،ہم داعی کا کردار ادا کر کے یہ ثابت نہیں کر سکے ہم اچھے داعی ہیں،ہم دنیا کے کسی میدان میںانسانیت کے لئے کوئی اچھا کام کر کے یہ ثابت نہیں کر سکے ہمیں انسانیت سے ہمدردی ہے نہ ہم ٹیکنیکل کے شعبہ میں دنیا کو کچھ دے سکے، دنیا کو ہم نہ میڈیسن کے شعبہ میں کچھ دے سکے اور نہ ہم زراعت کے شعبہ میں دنیا کو کچھ دے سکے، اور دنیا میں تمام وہ عیش و آرام کی چیز یں جو دوسرے لوگ بنائے ہوئے ہیں ،استعمال کر رہے ہیں۔ ہم دنیا کے اوپر بوجھ بنے ہوئے ہیں ،دنیا کے سامنے ہماری تصویر پیش ہوئی تو بس دہشت گردی یا جہادی کے طور پر پیش ہوئی یا پھر کوئی ہمیں ہلاک کر رہا ہے یا پھر نہیں تو ہم آپس میں خوں ریزی کے ذریعہ ایک دوسرے کو ہلاک کر رہے ہیں، مسجدوں میں بم پھٹ رہے ہیں اور نمازی شہید ہو رہے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب مسلم ملکوں میں ہو رہا ہے۔ اس طرح کے واقعات ہمیں دوسرے ملکوں کی عبادگاہوں میں نظر نہیں آتے ہیںاور یہ تمام واقعات صرف اور صرف مسلکی شدت پسندی یا اقتدار کی خاطر ہورہا ہے، اس کا الزام دوسروں پرتھوپنا اپنی ذمہ داری سے فرار ہونا ہے اور اصل بنیادی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں کو ہٹانا ہے ۔جب تک ہماری کمزوریوں اور خامیوں کو دور نہیں کیا جائے گا،اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے چاہے وہ مسلم ملک میں ہو یا جہاںمسلم رہتے ہیں۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے مسلمانوں نے دنیا میں جنگ کے ذریعہ نہیں بلکہ محبت اور دعوت کے ذریعہ فتح حاصل کی ہے۔ ہمیں صحابہؓ کی زندگیوں کو دیکھنا ہوگا، چند سالوں میں عرب کی سر زمین سے نکل کر افریقہ ،ایشیائی،یورپ کی سر زمین پر اسلام کا پرچم لہرایاوہی راستہ ہماری کامیابی کا راستہ ہے، باقی جتنی بھی کوششیں ہیںنا کام اور نقصان دہ ثابت ہوں گی ۔
رابطہ۔ 9916729890
[email protected]>
������������������
اپناتعارف اپنے کردار سے کیجئے !