اَخروٹ کا سیزن جو بن پر، انسانی جانوں کازیاں بھی جاری حادثات سے بچنے کیلئے چھوٹے قد کے پودے متعارف ، نرسریاں بھی تیار

اشفا ق سعید

سرینگر //کشمیر میں اخروٹ کی فصل اُتارنے کے دوران انسانی جانوں کا ضیاں جاری ہے ۔جموں وکشمیر میں اخروٹ اُتارنے کے دوران سالانہ اوسطاٌ 6افراد اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں،جبکہ کئی ایک زندگی بھر کیلئے اپاہچ بن جاتے ہیں۔جموں وکشمیرمیں اِس وقت اخروٹ اُتارنے کا سیزن جوبن پر ہے اور امسال بھی متعدد علاقوں میں اخروٹ اُتارنے کے دوران ابھی تک 5 افراد کی موت ہو چکی ہے۔معلوم رہے کہ اس سے قبل دیہات میں اخروٹ اتارنے کے کام کیلئے مہارت یافتہ افراد کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں ، جسکی وجہ سے اس طرح کے حادثات بھی کم ہوتے تھے۔غیر مہارت یافتہ افراد کے ذریعے اخروٹ اتارنے کی وجہ سے حادثات میں اضافہ ہوگیا ہے اور پچھلے 2برسوں میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔اب اخروٹ اتارنے والے ماہر لوگ نایاب ہوچکے ہیں اور اب عام مزدوروں سے یہ کام لیا جارہا ہے جو درخت پر چڑھنے کی مہارت سے عاری ہوتے ہیں اور یا لوگ از خود اخروٹ اتارنے کا کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے اس طرح کے حادثات متواتر طور پر پیش آرہے ہیں۔

 

اس سال حاجن کرالہ گنڈ میں 13ستمبر کو اخروٹ کے درخت سے گر کر ایک شہری لقمہ اجل بن گیا، جبکہ اس سے قبل گبراہ کرناہ کا رہنے والا جمیل احمد نامی شہری بھی اخروٹ اتارنے کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔جمعرات کو کرناہ کے سلمان گائوں میں منیر احمد نامی ایک شہری کی موت بھی اسی طرح واقع ہو ئی ۔بجبہاڑہ میں بھی ایک 55سالہ شہری اسی سال اخروٹ اتارنے کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ رواں سال اگست کے مہینے میں شوپیان ضلع میں ایک استاد اخروٹ کے درخت سے گر کر لقمہ اجل بن گیا ۔ جموں وکشمیر میں کوئی بھی ایسا سال نہیں گزرتا جب اوسطا ً6افراد اخروٹ اتارنے کے دوران گر کر لقمہ اجل نہ بنتے ہوں ۔ معلوم رہے کہ جموں و کشمیر میں ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں میں اخروٹ اتارنے کا سیزن ہوتا ہے۔جموں کشمیر خاص کر وادی میںاخروٹ بڑی مقدار میں پیدا ہوتے ہیں اور پورے ملک کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی بہت مقبول ہیں۔ برسوں سے جموں و کشمیر کا خطہ اخروٹ کی پیداوار میں سرفہرست رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں ہماچل پردیش ، اروناچل پردیش اور اتراکھنڈ جیسی ریاستوں نے اخروٹ کی کاشت شروع کی ہے اس کے باوجود جموں و کشمیر بھارت میں اخروٹ پیدا کرنے والا اہم علاقہ ہے۔ جموں و کشمیر میں خشک میوہ جات کی کاشت کے تحت اخروٹ کے درخت زمین کے 85.05 فیصد پر پھیلے ہوئے ہیں۔ سرکاری اندازوں کے مطابق تقریباً وادی میں 206.43میٹرک ٹن اخروٹ 89000 ہیکٹر اراضی سے اگائے جاتے ہیں۔ اخروٹ برآمدی اجناس ہیں اور سالانہ 120 کروڑ روپے آمدن کا سبب بنتے ہیں۔ بھارت سے برآمد ہونے والے اخروٹ کی پیداوار تقریباً 98 98. فیصد جموں و کشمیر میںہوتی ہے۔ ، جبکہ بھارت میں اخروٹ کی کل پیداوار کا تقریباً 90 فیصد علاقہ UT میں آتا ہے۔ محکمہ باغبانی کے ڈائریکٹر کشمیر غلام رسول میر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ محکمہ نے نئے اعلیٰ معیار کے چھوٹے قد کے پودے متعارف کرائے ہیں اور ان کی نرسریاں تیار کی جا رہی ہیں ۔ان پودوں سے آسانی سے لوگ بنا کسی حادثہ کے اخروٹ اُتار سکتے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ ہمیں پرانی سوچ سے نکل کر اعلیٰ معیار کے پودوں کی پلانٹ ٹیشن کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے رواں سال 13اعلی معیار کے پودوں کی نرسریوں کو نجی سیکٹر میں منظوری دی ہے اور ہر ایک نرسری 5کنال اراضی پر ہو گی۔انہوں نے کہا کہ اعلیٰ معیار کے پودوں سے ایک تو پیداروار بھی بہتر ہو گی وہیں حادثات سے نپٹنے میں بھی وہ مددگار ثابت ہوں گے ۔انہوں نے اخروٹ اُتارنے والے مزدوروں کوحفاظتی تدابیر اپنانے پر زور دیا ۔ انہوں نے کہا کہ اخروٹ اُتارنے کے دوران ہیلمٹ کا استعمال کریں ،حفاظتی رسی باندھیں ، درخت پر چڑھنے کیلئے لمبی سیڑھی کا استعمال کریں، غیر مناسب جوتے نہ پہننے ، موبائل کا استعمال نہ کریں ،ڈھیلا لباس نہ پہننے ۔