انسان اورجنگلی جانوروں کاتصادم وادی میں12برس میں 166افرادہلاک،2246 زخمی

بلال فرقانی

سرینگر// وادی میںسال2010کے بعد انسانو ںوجانوروں کے درمیان تصادم آرائیوں میں166افراد کی جانیں تلف ہوئیں جبکہ2246افراد زخمی ہوئے۔امسال بھی7 شہری جانوروں کا تر نوالہ بن گئے جبکہ42زخمی ہوئے۔ وادی میں موسم سرما کی آمد کے ساتھ جنگلی جانوروں کے حملوں میں بھی تیزی آتی ہے،جس کے نتیجے میں قیمتی جانوں کا نقصان ہوتا ہے۔ انسانوں و جنگلی جانوروں کے درمیان تصادم آرائی کے نتیجے میں لوگوں، ان کے وسائل اورجنگلی جانوروں یا ان کی پناگاہوں پر منفی اثر پڑتا ہے۔ انسانوں اور جانوروں کے درمیان تصادم آرائی اُ س وقت پیش آتی ہے جب جنگلی حیات کی ضروریات انسانی آبادی سے پوری ہوجاتی ہیں ، اور اس کا نقصان شہریوں اور جنگلی جانوروں دونوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ وادی میں اس طرح کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ دستیاب اعداد شمار کے مطابق سال2011-12میں28 شہری جنگلی جانوروں کا شکار بن گئے جبکہ315زخمی ہوئے جبکہ سال 2012-13میں11افراد جانوروں کے حملوں میں ہلاک اور259زخمی ہوئے۔ اعداد شمار کے مطابق سال2013-14میں ان حملوں میں 28انسانی جانیں تلف ہوئیںجبکہ333زخمی ہوئے اورسال2014-15میں11افراد ہلاک اور189زخمی ہوئے۔سال 2015-16میں7افراد جان بحق ہوئے اور 259زخمی ہوئے جبکہ سال 2017-18میں8انسانی زندگیاں جانوروں کے حملوں میں ضائع ہوئیں اور120زخمی ہوئے۔اعداد شمار کے مطابق سال 2018-19میں6لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور83زخمی ہوئے جبکہ سال2019-20میں11شہری ہلاک اور85زخمی ہوئے۔ سال2020-21میں10افراد جان بحق ہوئے اور75زخمی ہوئے جبکہ امسال اب تک امسال بھی7 شہری جانوروں کا تر نوالہ بن گئے جبکہ42زخمی ہوئے۔ماہر جنگلی حیات ڈاکٹر عمر نذیر کا کہنا ہے کہ جنگلات اور باغات کے درمیان خالی علاقہ نہ ہونا اور زرعی زمین کے استعمال کی تبدیلی ، دیہی اور نیم شہری علاقوں میں روایتی فصلوں (دھان) باغبانی (میوہ، زیادہ تر سیب) میں تبدیل ہونا شامل ہیں کیونکہ یہ ریچھوں کو اپنی طرف راغب کرتا ہے جن کو جنگل کے بجائے باغات میں اچھے معیار اور بڑی مقدار میں کھانا ملتا ہے ‘‘۔انہوں نے کہا کہ تیندوے کو2چیزوں کی ضرورت ہے اور وہ،پناہ اور کھانا ہے، انہیں جہاں پر بھی یہ ملتا ہے ان کی افزائش وہاں ہوتی ہے۔ زرعی یونیورسٹی میں شعبہ جنگلی حیاتیات سے وابستہ ڈاکٹر خورشید کا کہنا ہے کی شہری بستیوں کے نزدیک قائم کی جا رہی نرسریاں تیندئوں کو پناہ لینے کیلئے اچھا کردار کرتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ شہری تیندوے ہیں اور آوارہ کتوں کی شکل میں انہیں آسان غذا میسر ہیں،جبکہ انہیں قابو میں کرنا ضروری ہے،کیونکہ یہ فطری ماحول کا حصہ نہیں ہے۔’’ وادی میں انسانوں اور جنگلی جانوروں کے درمیان تصادم آرائی میں ہلاکتوں سے متعلق ایک تحقیق میں 10سالہ مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انسانوں و جانوروں کی تصادم آرائیوں میںریچھ سب سے زیادہ ذمہ دار تھا جس کے بعد تیندوا جبکہ بندر اور سرخ لومڑی کے حملے کم عام اور مہلک تھے اور تیندوئوں کے حملوں میں اموات سب سے زیادہ تھیں۔انٹرنیشنل جرنل آف ریسرچ آف میڈیکل سائنسز میں شائع اس تحقیق میں کہا گیا’’ انسانوں اور جانوروں کے درمیان تصادم آرائیاں یقینا بڑھتی جارہی ہیں،جبکہ ریچھوں اور تیندووںکے زیادہ تر حملے تباہ کن ہیں اور اس طرح کے حملوں سے بچ جانے والے بیشتر افراد کو کچھ حد تک معذوری اور نفسیاتی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ‘‘ محکمہ وائلڈ لائف کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ سال2020میں1650 واقعات پیش آئے جن جنگلی جانور انسانی بستیوں کے نزدیک پہنچے،اور ان میں سے1050کیسوں کو کامیابی کے ساتھ نپٹا یاگیا۔ان کا کہنا تھا’’ہمارے پاس 2006 سے ریکارڈ موجود ہیں اور ماضی کے مقاملے میں انسان؎ و جانوروں کے درمیان تصادم آرائی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی۔انہوںنے مزید کہا کہ وادی میں جنگلی جانوروں سے نمٹنے کے دوران محکمہ کامیابی کی شرح 90 فیصدہے۔