منظور الٰہی ۔ترال
بلا شبہ اسلام زندگی کے ہر ہر شعبے میں انسان کی رہنمائی کر تا ہے، خواہ وہ حکومت و سیاست ہو ، یا کاروبار و تجارت ، رہن سہن کے طور طریقے ، گھر اور باہر کے لوگوں سے تعلقات یا پھر خوشی و غم کے حالات ، غرض اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ لیکن افسوس آج کے مسلم معاشرے نےنہایت بے دردی کے ساتھ ان سب میدانوں سے اسلام کو علاحیدہ کررکھا ہے اور حد یہ ہے کہ ہم بہ حیثیت مسلمان اپنے آپ کو دنیا کے تمام مذاہب سے بالا تر سمجھ کردوسروں پر تنقید اور اعتراضات کر نے پر کمر بستہ تو رہتے ہیں ۔لیکن اپنی خامیوں پر نظر نہیں ڈالتے ہیں اور نہ ہی انہیں ختم یا اصلاح لانےکی کوشش کرتے ہیں،گویا ہم نے اپنے گریبانوں میں جھانکنا تک چھوڑ دیا ہےکہ کیا ہمارا کر دار ، ہمارا عمل ،ہمارے اسلام کی غمازی بھی کر تا ہے یا نہیں ؟ امتِ مسلمہ کو دین اسلام نے جن جن کا موں کو کر نے پر زور دیا ہے، وہ تمام عمل ہم نے تر ک کر دیئے ہیں اور جن جن کا موں سے ہمیں روکا ہے وہ تمام کام ہم نے اپنی زندگی کا خاصہ بنا لئے ہیںاور اس طرح حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا آج اُن تمام خرابیوں میں لت پت ہو چکے ہیں،جن سےزمانۂ جاہلیت کی یاد تازہ ہورہی ہے۔ لوٹ مار، حق تلفی ، زنا ، حرام خوری ، شراب نوشی ،منشیات کا کاروبار اور استعمال ،ایک دوسرے پر بالادستی ،ذاتی عناد سمیت تمام امراض آج مسلم معاشرے میں موجود ہیں ۔جس کے نتیجے میں اب انتہائی درندگی کے وارداتیں اور شرمناک واقعات منظر عام آتے رہتے ہیں۔
وادیٔ کشمیر جس کو جنت بے نظیر بھی کہا جاتا ہے، اسے ریشیوں ،منیوں ،بزرگانِ دین اوراولیائے کرام کی سرزمین کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔یہاں علمدارِ کشمیر ، شاہ ہمدان،مخدوم حمزہ،دستگیر صاحب سمیت کئی مشہور خانقاہیں ہیں۔ قدرتی نعمتوںسے مالا مال وادیٔ کشمیر میں درگاہ حضرت بل بھی ہے،جہاں ہمارے پیارے نبی ؐ کا موئے مبارک بھی ہے۔لیکن ان سبھی نعمتوں کے باوجود یہ وادی آج جنت کا نہیںجہنم کا نظارہ پیش کر رہی ہے اور بے حیائی و کالے کرتوتوں کی آماجگاہ بن گئی ہے۔، بے دینی اور شیطانی حرکتوں کا اڈہ بن گئی ہے ،یہی وجہ ہے کہ آج کل یہاںبد بخت اور ذلیل قسم کے انسانوں کی بھرمار ہےجو بنا سوچے سمجھے ایسے گھناونے کام کرتے رہتے ہیں جن سے پوری انسانیت شرمسار ہو جاتی ہے اور کشمیریت بدنام ہورہی ہے۔ بد دیانتی ،بے ایمانی ،جھوٹ اور لوٹ کھسوٹ ہورہی ہے۔ منشیات کے غلیظ دھندےاور منشیات کے استعمال کرنے والوں کی بہتات ہے۔ اب تو وادیٔ کشمیر میں زنا خوری ، ریپ اور قتل جیسے شیطانی کام اور واردات کی بات ہر گزرتے دن کا حصہ بنتی جارہی ہے۔ آئے دن نابالغ بچیوں کے ساتھ کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی اور چھیڑخوانی تشویشناک صورت حال پیدا کرچکی ہے۔ایسا دکھائی دیتا ہے کہ درندگی انسانی جبلت پر غلبہ پاچکی ہے،اور شیطانی قوت نے درندہ صفت لوگوں میں سوچنے اور سمجھنے کا شعور بھی بھسم کردیا ہےاور ان سےمعصوم اور کمسن بچوں کی معصومیت اور لڑکپن کو دیکھنے کی بینائی تک سے چھین لی ہے۔ جس کے سبب وہ انتہائی گھناونے اور کالے کرتوت انجام دے ہیں۔ظاہر ہے کہ کسی بھی طرح جب یہ معصوم و کمسن بچے یا بچیاںاُن کی شیطانی حرکتوں کا شکار بن کر زندہ بچ نکلتے ہیںتو ان کے ساتھ ہوئی کسی بھی نازیبا حرکت کے نتیجے میں وہ مختلف اُلجھنوں میں مبتلا ہوجاتے ہیںاور کئی عمر بھر کے لئے ذہنی طور پر مفلوج ہوجاتے ہیں۔ شائد ہی اب کوئی دن گزرے، جب ریپ یا چھیڑخوانی کی خبریں پڑھنے کو نہ ملتی ہو۔ جبکہ وقفہ وقفہ کے بعد ایسی وارداتیں یہاں کے اخباروں اور سوشل میڈیا کی زینت بن جاتی ہیں۔ خواتین اور بچیوں کے خلاف ہراسانی اور زیادتی کی ہولناک خبریں یکے بعد دیگرسامنے آتی رہتی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کچھ اسکولوں میں بھی اس طرح کے واقعے پیش آئے ہیں۔حالانکہ جن سکولوں سے انسان تعلیم حاصل کرتا ہےاور دین و دنیا کے علم سے روشناس ہوکر جاہلیت،بُرائی اور بے عملی سے صاف و پاک ہوجاتا ہے ،اب بعض اسکولوں میں اس طرح کے غیر مہذب اور بے حیائی کے کام ہو رہے ہیں۔جو محض افسوس کا مقام ہی نہیں بلکہ معاشرے کی انتہائی بدبختی بھی ہے۔ تعجب ہے کہ وادیٔ کشمیر کے مسلم معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیںجن کی عمر 45 اور 65سالکے درمیان ہے، اس طرح کی گھناونی حرکتوں میں ملوث ہورہے ہیں،اور زنا اور قتل کے مرتکب بن جاتے ہیں۔گزشتہ دن کنٹھ پورہ، سوگم کپواڑہ کا رہنے والا ایک 46 سالہ محمد اقبال شیخ کوایک 15 سالہ لڑکی کی عصمت دری کے کیس میں گرفتار کیا گیا۔ اس سے پہلے اس طرح کا ایک واقعہ شہر سرینگر کے برزلہ علاقہ میں پیش آیا تھا جہاں 22 سالہ زید فیروز نامی شخص کو 12 سالہ کمسن بچی کے ساتھ عصمت دری کے کیس میں گرفتار کیا گیا ہے اور اسی طرح کا ایک واقعہ کچھ مہینے پہلے جنوبی کشمیر کے پامپور میں پیش آیا تھا جہاں ایک درندہ صفت انسان نے اپنی بھابی کی عصمت دری کرکے، اُس کا گلا دباکر قتل کردیا تھا۔ ایسے کتنے ہی اندوہناک واقعات ہوتے رہتے ہیں،جنہیں شرمناک سمجھ کر لوگ پولیس اور قانون کی نوٹس میں لانے سے پہلے ہی اس لئے دبا لیتے ہیں تاکہ وہ بدنامی اور رُسوائی سے بچ جائیں ۔ جنہیں سُن کر یا دیکھ کر رونکٹھے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آبر وریزی ’’ریپ ‘‘اپنے آپ میں ہی ایک گھناونا فعل اور ناقابل معافی جرم ہے۔ جن کے ساتھ ایسے دردناک حادثے ہوتے ہیں، وہ کس جسمانی اذیت اور ذہنی کرب سے گزرتے ہیں، اس کا اندازہ بھی ہم نہیں لگاسکتے ۔ ان درندوں کو یہ حق کس نے دے دیا ہے کہ ایک اچھے خاصے خوش باش انسان کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر اُسے عمر بھر ذہنی اور جسمانی اذیت میں مبتلا کردیں۔ اس طرح کی کتنی ہی دل دہلا دینے والی خبریں آتی رہتی ہیں۔لیکن حقیقت میں اس جرم کی روک تھام اور خواتین کے تحفظات کو یقینی بنائے جانے کے لئے کبھی بھی پوری سنجیدگی سے غور وفکر ہی نہیں کیا گیا۔ اگر ریپ کی کوئی خبر اخبارات اور نیوز چینلز کی ہیڈ لائن بن جائے یا عوام کی طرف سے شدید رد عمل آنے لگے تو وقتی طورکچھ سخت بیانات اور کوئی ایکشن ضرور نظر آتی ہے،لیکن کچھ وقفہ تک ہی اس کا اثر باقی رہتا ہے۔ جبکہ یہ سلسلہ ایک لمبے عرصے سے چلا آرہا ہےاور تسلسل کے ساتھ جاری ہے ،اور ملک کی کچھ ریاستوں میں دن بہ دن ایسی وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ملک میںکہیں نہ کہیں بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی نے اِن وحشی درندوں کے دماغ پر ایک منفی اثر ضرور ڈال دیا ہے کہ اس طرح کے جرم کرنے اور پکڑے جانے کے بعد انہیں بھی بہرحال رہائی مل جائے گی۔ گویا قانون کا خوف ان کے دلوں سے نکلتا جا رہا ہے اور وہ اپنے کالے کرتوت انجام دینے میں کوئی کھٹکا محسوس نہیں کرتے۔ خواتین کے تحفظات کو یقینی بنائے جانے کے لئے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو پوری سنجیدگی کے غور و فکر کر نے کی اشد ضرورت ہے اور متفقہ طور پر خواتین ،لڑکیوں اور کمسن بچوں کی عزت پامال کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت قانون پاس کرنا چاہئے۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ عصمت دری کے کیس کی تفتیش اور عدالتی کارروائی سست روی کے بغیر ہو اور مجرم کو جلد از جلد سخت سزا دی جائے ۔جب تک ریپ کے مجرموں کے خلاف سخت سے سخت قانون کے تحت سزائیں نہ دی جاتیں ،تب تک یہ سلسلہ قابو میں آنے والا نہیںہے۔ سماج کے باشعور لوگوں کو بھی اس سلسلے میں آگے آنے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت ملک کی ماں ،بہن اور بیٹیوںکے تحفظ کے کوئی ٹھوس اور سخت قانون نافذ کرنے پر مجبور ہوجائے۔جبکہ دینی اور فلاحی تنظیموں کے ساتھ علماء و ائمہ حضرات کو اس مسئلے میں اپنا تعاون پیش رکھنا چاہئے۔ معاشرے کی بہن بیٹیوں پر بھی لازم ہے کہ وہ ایسا طرز عمل اپنائیں ،جس سے وہ اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں ۔خاص طور پر والدین اپنی بیٹیوں اور باشعور نوجوان اپنی بہنوں کی عزت و عصمت کا بھر پور خیال رکھیں،اور ان انسان نُما درندوں پر نظر رکھیں اور جہاں کہیں بھی دکھائی دیں ،اُنہیں دبوچ کر قانون کے حوالے کریں۔یا رہے کہ معاشرے سے برائیوں کو ختم کر نے اور نیکیوں کو پھیلانے کے لئےبھر پور جدو جہدکی ضرورت ہوتی ہے۔اگر ہم سب ایک دوسرے کو اپنے قول و عمل ، اخلاق و کردار سے ا چھائی اور بھلائی کی طرف بلائیں ،اور اچھائی اور بُرائی کی حقیقت سے روشناس کریںاور پوری دیانت و اخلاص کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں، تو حالات بہتر ہو نگے ورنہ جب تک ہم اپنے افعال و کردار کو نہیں سدھارتے، تب تک خیر کی توقع دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں،کیونکہ جس بے حسی نےہماری غیرت اور احساس کو غارت کردیا ہے ،یہی بے حسی ہمیں انسان ہوکر انسان نہیں بننے دے گی۔