رشید پروین، ؔ سوپور
شری امر ناتھ یاترا جاری ہے اور اب تک سر کاری اعداد و شمار کے مطابق لاکھوں یاتری درشن سے مستفید ہوچکے ہیں اور ابھی یہ سلسلہ رواں رہے گا ۔ یاتریوں کی سہولیات اور ان کا سارا سفر آرام دہ اور آسان بنانے کی خاطر بہت سارے اور بے شمار اقدامات کئے جاتے ہیں ، جو ایک احسن قدم ہے ، لیکن کشمیر اور کشمیر سے باہر کچھ اس قسم کا تاثر قائم کیا جارہا ہے کہ شاید اب ہی یاترا اور یاتریوں کے آرام اور آسائش کا خیال رکھا جاتا ہے اور شاید یہ بھی گماں ہوتا ہے کہ اس سے پہلے یہ سفر نہ تو آسان تھا اور نہ ہی پوری طرح سے محفوظ۔ اس مذہبی فریضے میں اگر یہ تاثر پیدا کیا جائے اور پیدا کرنے کی کوشش ہوتو یہ ایک مذہبی معاملے اور اس سے جڑے ہوئے دوسرے نقطہ ہائے نگاہ کو سیاسی رنگ دینے کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے ۔ جبکہ کشمیر کا صدیوں سے پورا ریکارڈ موجود ہے کہ کشمیری لوگ اس سفر میں یاتریوں کے ہمیشہ نہ صرف شانہ بہ شانہ چلتے رہے ہیں بلکہ ان کی ہر ہر آسائش اور سہولیت کا سرکار ی اور غیر سرکاری طور پر خیال رکھتے آرہے ہیں ۔ اب کی بار عزت مآب لیفٹیننٹ گورنر کے علاوہ دوسرے کلیدی عہدے داروں اور ارباب اقتدار نے بہ نفس نفیس بھی تمام سرکاری اقدامات کا جائزہ لیا اور آن سپاٹ بہت ساری مفید ہدایات اور احکامات بھی جاری کر دئے ۔ اس میں ہر قدم پر عوامی تعاون میسر ہے اور اس کا احساس بھی کیا جارہا ہے اور اس عوامی جذبے کی سراہنا بھی کی جارہی ہے۔
لیکن میری توجہ کا مرکز سربراہ گورو یا مہنت دپندر گری کا بیان ہے جس میں انہوں نے کہا اور اعتراف کیا ہے کہ ’’ کشمیری لوگ ہمیشہ یاتریوں کا ساتھ دیتے رہے ہیں ، تعاون کرتے رہے ہیں اور پیار و محبت کے ساتھ یاتریوں کے آرام اور سہولیات کا خیال رکھتے آئے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سلسلہ اسی طرح صدیوں سے چلتا آرہا ہے ،یہ کشمیری لوگ ہی ہیں جو انتہائی کٹھن اور مشکلات میں بھی کمزور و نحیف یاتریوں کو چار پائیوں پر سوار امر ناتھ گپھا کے درشن کراتے رہے ہیں اور یہ بھی ایک اٹل حقیت ہے کہ کشمیری عوام سے کبھی تاریخ میں کسی بھی یاتری کے خلاف کوئی ایسی حرکت سرزد نہیں ہوئی جس سے کسی یاتری کے جان و مال کو خطرہ لاحق رہا ہو ، اور پوری ملی ٹینسی کی تاریخ میں شاید اس طرح کا ایک یا دو واقعے ریکارڈ ہوئے ہوں جن کی نہ صرف بڑے پیمانے پر عوام نے بھی مذمت کی تھی۔یہاں یاتری اور تمام غیر مسلم لوگ ، تنہا ہوں یا جماعت کی صورت میں،اپنے آپ کومحفوظ پاتے ہیں‘‘ ۔
بہرحال گورو مہنت دپندر کے اس بیان کی روشنی میں یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ رواداری ، اخوت ، بھائی چارہ اورانسانیت کے بلند و بالا اقدار کی حفاظت اور ان کی نگہبانی کشمیری مسلماں کا طریق زندگی اور شیوہ ہی رہا ہے ۔ جموں و کشمیر سے متعلق ماضی قریب میں اور ابھی تک کہیں کہیں کچھ فرقہ پرست لوگ ایسے بیانات داغتے رہتے ہیں جو کشمیر کی ہزاروں برس کی تاریخ کے ساتھ کسی بھی طرح موافقت نہیں رکھتے ۔میں یہ بات اس لئے دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ایسے بیانات اپنے پس ِ منظر میں سر زمین کشمیر کی ’’بو باس ‘‘ سے نہ تو ہم آہنگ ہیں اور نہ کوئی مطابقت رکھتے ہیں ۔تاریخی طور پر ۴۷ ۱۹ سے کشمیر کی اکثریتی مسلم آبادی کئی ایسے مرحلوں سے گذری ہے جنہیں انتشار ، اضطراب اور عذاب مسلسل سے تعبیر کیا جاسکتا ہے لیکن یہاں آج تک کی تاریخ تک کسی ایک بھی ہندو مسلم فساد کا ریکارڈ موجود نہیں۔ یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہاں کی مسلم اکثریت منافرت ، تعصب اور بغض سے آشنا ہی نہیں ۔ مسلم اکثریت ہر وقت اپنے ہندو بھائیوں کا استقبال کرنے اور انہیں پھر وادی میں اپنی روایات کے مطابق بودو باش کرنے کو کھلے دل سے خوش آمدید کہنے کو تیار بھی ہے اور یہ بھی حق ہے کہ وہ کشمیر کے گلستاں کو اس برادری کے بغیر نامکمل سمجھتے ہیں ۔مہاتما گاندھی کو اس زمانے میں بھی ہمارے ہاں بھائی چارے اور محبت کی فروزاں شمع کا احساس ہوا تھاجب تقسیم ہند کے دوران دونوں طرف سے منافرت کے شعلوں میں ہر چیز بھسم ہوتی دکھائی دی تھی، جب گھٹا ٹوپ اندھیروں میں انسانیت ، محبت ، یگانگت اور اپنائیت کے سارے چراغوں نے دھویں کا کفن نہیں پہنا تھا،لیکن یہی سرزمین اس بات کا یقین دلارہی تھی کہ اس رات کی سنگینی ختم ہوگی اور سحر بھی یقینی طور پر نمودار ہوگی ۔
کشمیر بھائی چارے ،امن و شانتی کی عملی مثال اور گہوارہ ہے ،جس طرح بھارت میں صدیوں سے ہندو مسلم میل ملاپ ،یگانگت اور بھائی چارے نے ایک نئی تہذیب کو جنم دیا تھا جس سے ہم اور آپ گنگا جمنی تہذیب سے مو سوم کرتے ہیں ، بالکل اسی طرح یہاں اس جنت بے نظیر میں سبھی طرح کے مذاہب اور ادیان کے ماننے والے ایک ساتھ ، ایک واحد گھرانے کی طرح رہتے آئے ہیں ، آج بھی کسی اقلیتی فرقے کے فرد کو جو یہاں بودوباش رکھتا ہے کسی مسلم سے کوئی خوف یا گزند نہیں پہنچی ہے۔ہماری پنڈت برادری کو90کی دہائی میں جن حالات میں اپنے گھر چھوڑنا پڑے ،اُس بحث میں پڑے بغیر آج بھی ایک اچھی خاصی تعداد ہندو برادری کی کشمیر میں ہمارے ساتھ رہ رہی ہے اورجب بھی کوئی ہندو بھائی سورگباشی ہوتا ہے تواس کے اپنے نہیں بلکہ مسلم برادری کے لوگ اپنے کندھوں پر میت کو شمشان گھاٹ تک پہنچاتے ہیں ، غمزدہ کے گھر چار دن تک سوگ میں شامل رہتے ہیں اور تمام ہندو رسومات کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے اس گھرانے کے ساتھ ان کے دکھ درد میں شامل رہ کر ان کی ڈھارس بندھاتے ہیں ۔ یہ ایک بار فوٹو سیشن کی بات نہیں ، بلکہ پچھلے تیس برس سے یہ عمل مسلسل دہرایا جارہا ہے۔
بدقسمتی سے سارا ملک الیکٹرانک میڈیا کا یرغمال ہوچکا ہے اور ہم وہی کچھ سوچتے ، سمجھتے ، بولتے ہیں جو یہ میڈیا ہمیں سمجھانا اور بلوانا چاہتا ہے۔یہاں ہر طرف امن اور شانتی کا عالم ہے۔حالیہ جی20اجلاس سے اس بات کو تقویت ملی ہے ۔لیکن افسوس کہ کچھ آوازیں اب بھی اٹھ رہی ہیں جو نامناسب بھی ہیں اور انتہائی غیر سنجیدہ بھی ہیں ۔کشمیری عوام اپنی ہندو برادری کا ستقبال کرنے کے تیار ہے ، جس طرح وہ محبت اور احترام کے ساتھ ان لاکھوں یاتریوں کا کرتے ہیں ۔ کشمیر کی فضاؤں کو اسی پس ِ منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ بہت سارے وہ مسائل حل ہوں ،جو عوام کے بنیادی انسانی حقوق سے جڑے ہیں۔
ای میل۔ [email protected]