کہنے کومودی حکومت دہشت گردی کے خلاف اپنی مہم پر نازاں ہے ۔ گزشتہ کئی سال سے یہ اقوام متحدہ سے لے کر ہر ملک اور ہندوستان آنے والے ہر غیر ملکی حکمران سے دہشت گردی کے خلاف اپنی مہم میں مدد کی درخواستیں کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی عالمی ادارہ، حکمران یا ملک دہشت گردی کے ناسور کے خلاف کسی بھی مہم میں مدد کرنے سے انکار نہیں کرسکتی۔ مولانا مسعود اظہر کو پاکستان سے ہندوستان لانے کے لئے خارجی سطح پر بھی حکومت ہند زبردست مہم چلارہی ہے۔ تصویر کا دوسرا رُخ دیکھئے کہ اسی مہم کے برخلاف خود اپنے ملک میں تمام بھاجپائی حکومتیں وہ تمام ملزم جو مختلف دہشت گردی کی وارداتوں میں مبینہ طور پر ملوث رہے ہیں ، یکے بعد دیگرے عدالتوں سے بری کرانے میں کامیاب ہوچکی ہیں۔ چنانچہ مالیگائوں، مکہ مسجد ، درگاہ اجمیر اور سمجھوتہ ایکسپریس جیسے دہشت گردانہ دھماکوں میں ملوث تمام ملزمین ،جن میں اسیمانند اور سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر جیسے کٹر ہندوتوادی شامل ہیں، اب قانون کے مواخذے سے آزاد ہیں۔ یہاں تک کہ دہشت گردی اور فرقہ پرستی میں مبینہ طور ملوث پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں پر مقدمہ چلانے سے متعلقہ حکومتوں نے انکار کردیا ہے۔ کیا اس طرح سے دہشت گردی میں ملوث ہندتووادی ملزموں کو کھلی چھوٹ نہیں مل رہی ہے ، جب کہ اے ٹی ایس مہاراشٹر کے سربراہ آنجہانی ہیمنت کرکرے کی پوری محنت (جو انہوں بعض ہندتووادی دہشت گردوںکے خلاف کی تھی) ضائع نہیں ہوچکی ہے؟کیا اس سے یہ باور نہیں ہوتا کہ حکومت ِہند سمیت کئی ریاستی حکومتوں کی یہ کوشش ہے کہ آر ایس ایس کے اس مفروضے کو ’’ہندودہشت گرد نہیں ہوسکتا‘‘ صحیح ثابت کیا جائے تاکہ ملک میں کوئی یہ کہہ نہ سکے کہ دہشت گرد ی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔
دہشت گردی مخالف مہم کا یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ فرقہ پرستی کے کئی سنگین جرائم (قتل، غارت گری اور مسلم کش فسادات) کے حوالے سے کئی معاملات میں ملزم یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ پر مقدمات چلانے سے یوپی کی حکومت نے انکار کردیا ہے۔ یہ غالباً ملک کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی برسرکار وزیر اعلیٰ کو کئی سنگین جرائم کے تعلق سے الزامات میں قانون اورعدالت سے ماوراء سمجھا جارہاہے ۔ اس طرح کی بھول سے ادتیہ ناتھ کی سربراہی میں یوپی کی زعفرانی حکومت نے ایک سیاہ تاریخ رقم کی ہے۔ عام حالات میں اگر کسی وزیر اعلیٰ پر الزامات لگتے ہیں تو ان کے ثابت ہونے کا انتظار کئے بغیر وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوجاتاہے تاکہ جمہوری اصولوں اور شرافت کا بول بالا ہو۔ خیر بھاجپائی جب حزب اختلاف میں ہوتے ہیں تو کسی بھی وزیر کی معمولی سی غلطی اور لغزش پر اس سے استعفیٰ کا مطالبہ زور و شور سے کرتے ہیں لیکن جب خود حکومت سنبھالتے ہیں تو خود کو ہر اصول سے مبرا سمجھ لیتے ہیں ۔ توکیا مختلف ریاستوں میں مبینہ طور جرائم میں ملوث رہے ہندوتوادی ملزموں کی رہائیاں عمل میں لانا بھاجپائی حکومتیں اپنا پہلا فرض سمجھتی ہیں؟ ایسے ملزمین کو بھی قانون کا کوئی ڈر نہیں جو حکومت کے اعلیٰ عہدیدار ہوں مثلاً حکومت گجرات کے اعلیٰ پولیس عہدیدار ونجارہ اور نریندر امین پر مقدمات چلانے سے حکومت گجرات نے انکار کردیا تھا۔ ان دونوں پر مظلوم و معصوم عشرت جہاں کی جان فرضی جھڑپ میںلینے کا گھناؤنا الزام ہے۔ ان دونوں عہدیداروں پر اور بھی کئی الزامات ہیں جن میں سب سے اہم سہراب الدین اور ان کی اہلیہ کوثر بی کا فرضی انکاؤنٹر بھی شامل ہے۔ سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کے بیشتر مقدمات میں ماخوذ تمام ملزمین اگر دھڑادھڑا بری کردئے گئے ہیں تو پھر دہشت گردی کی ان بھیانک اور سنگین واردات کا اصل مجرم کون ہیں؟ ہیمنت کرکرے نے ان تمام مسلمانوں کو جو بدنام زماں مقدمات میں دہشت گردی کے حوالے سے جیلیں کاٹ رہے تھے، بری کردیا تھا اور بڑی محنت شاقہ اٹھاکر انسانیت کے اصل مجرموں تک پہنچے تھے۔ اب اگر یہ مجرم ہی نہیں تو پھر دہشت گردی کا اصل مجرم کون ہے؟ یہ پتہ چلانا کیا مرکزی اور ریاستی حکومتوں کا فرض نہیں ؟ دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف مہم چلانے میں پیش پیش وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنے ملک میں ہوئی دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوثین کو بری الذمہ قرار دئے جانے کے حیرت انگیز تکرار کی تحقیقات کرانی چاہئے۔ کیا اگر حکومتیںاس بارے میں چشم پوشی سے کام لیں گی تو ان پر ہندوتوادی دہشت گردی سے ہمدردی یا اس کی سرپرستی کا الزام نہیں لگ سکتا؟ ریاستی حکومتوں خاص طور پر مرکزی حکومت کا فرض بنتاہے کہ وہ دہشت گردی کو ملک میں اپنی تمام صورتوں میں جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے لئے حق وانصاف کا ساتھ دیں ورنہ دہشت گردی کے خلاف ہماری قومی اور ملکی مہم کے آگے سوالیہ نشان کھڑا ہوگا۔
Ph: 07997694060
Email: [email protected]