سید مصطفیٰ احمد
ہمارے یہاں ترقی کو محدود دائروں میں سمجھا گیا ہے اور آج بھی محدود دائروں میں ہی سمجھا جارہا ہے۔ شاہراہیں، بڑی بڑی عمارتیں، بجلی کے اونچے کھمبے، پانی کی سپلائی، تعلیمی اداروں کی بھرمار، ریلوے کی پختگی، وغیرہ کو یہاں ترقی کا نام دیا گیا ہے۔ زمینی سطح پر یہ واقعی ترقی کی نشانیاں ہیں، کیونکہ جتنا بنیادی ڈھانچہ مضبوط ہو، اتنا ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ مغربی ممالک میں basic infrastructure کی مضبوطی کی وجہ GDP میں خاصہ اضافہ ہوتا ہے اور Happiness and satisfaction indices کے ہندسے اُڑان بھرتے ہیں، بیماریوں کا تدارک ہوتاہے اور لڑائی جھگڑے کی نوبت بہت کم آتی ہے۔ لوگ حکومت کا ساتھ دیتے ہیں اور اس طرح ہر طرف خوشی ہوتی ہے۔ مشاہدہ کرنے والے باہری چمک دمک سے متاثر ہوتے ہیں اور تعریفوں کے پُل باندھتے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس ،اس ترقی کے پیچھے آنکھوں سے اوجھل وہ چیز پنہاں ہوتی ہیں، جن پر پورے ملک کی ترقی کا راز مضمر ہےاور یہی وہ اہم خوبی ہے جس سے باقی شعبوں میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔ یہ وہ باکمال وصف ہے جس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی، یہ ڈھونڈنے سے بھی حاصل نہیں کی جاسکتی ہے، اس اہم خوبی کا نام ہے ذہنی پختگی۔ دوسرے الفاظ میں intellectual development. ۔ہاں !یہ وہ attribute ہے جو اُن آسمان کو چومتی ہوئی عمارتوں کی اصل وجہ ہے۔ظاہر ہے کہ جب کہیںانسانی ذہن کے سارے دروازے کھلتے ہیں تو پھر عقل زمین پر ترقی ڈھونڈنے لگتی ہے۔ جب انسان اپنے دماغ سے سوچتا ہے، تو پھر تہذیب کے آخری پائیدان پر پہنچناکوئی بڑی بات نہیں ہے۔ بہت سارے ممالک میں شاندار سڑکیں اور عمارتیں تو ہیں، مگر rationality کا فقدان ہے۔ وہ رنگینیوں میں رنگے ہوئے ہیں، البتہ ان کے اذہان تاریکیوں میں ہوتے ہیں۔ ان کے یہاں اجسام پر خوبصورت ملبوسات زیب تن تو ہیں مگر اندر پھٹے پرانے وجود ہیں۔ وہ اپنے آپ کو عطار کی دکانوں سے مختلف عطر منگواتے ہیں اور سارے باہری ماحول کو معطر کرتے ہیں، لیکن ان کے اندر کی دنیا میں ایسی سڑن اور بدبو ہے جو کسی بھی عطر سے دور نہیں ہوسکتی ہے۔ یہ معاملہ ان ممالک کا ہے جہاں کے حکمران اور لوگ دونوں اندھیروںمیں جی رہے ہیں۔ ان کی آنکھوں پر inner darkness کا چشمہ چڑھا ہوا ہے ،جس کی وجہ سے ان کو چیزوں کا باہری حسن نظر آتا ہے،گویا ان کو صرف باہری رنگوں سے وابستگی ہے۔ رہا سوال چیزوں کے اندر جھانکنے کا تو یہ لفظ ان کی لغت میں نہیں ہے۔ ان کے دیکھنے کے زاویے ہی ایسے ہیں کہ ان کو اتنا ہی دِکھتا ہے جتنا دیکھنے کی وہ طاقت رکھتے ہیں۔
ہمارا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہمارے یہاں ہر معاملہ باہری ساخت دیکھ کر ہوتا ہے۔ اچھی نوکری، اونچا مکان، خوبصورت خاوند یا بیوی، گاڑی، بینک بیلنس، زمین، کارخانے، وغیرہ کا نام ہی زندگی اور ترقی ہیں۔ جس کے پاس یہ سب ہے، وہ سماج کا سب سے اعلیٰ فرد ہے، اس کی عزت کرنا لازمی بنادیا گیا ہے۔ اس کا فیصلہ پتھر کی لکیر سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس جس کے پاس یہ سہولیات نہ ہوں، اُسےانسان کہنا بھی گورا نہیں کیا جاتا، اس کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اس مضمون کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے۔ مانا کہ جو کسی عہدے پر فائز ہے ،وہ کسی حدتک کامیاب ہے۔ جو ہمارے لئے قوانین ترتیب دیتے ہیں وہ بہتر حالت میں ہے۔ مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ جس کے پاس یہ چیزیں نہیں،اُسے ہم اناڑی اور نااہل سمجھے۔ صد فیصد امکان ہے کہ ایسا انسان اعلیٰ سوچ رکھتا ہو اور چیزوں کو مختلف انداز سے دیکھنے کی صلاحیت والاہو۔ اس کے پاس ایسا ہنر موجود ہو، جو ان دولت مندوں کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو۔ اصل میں بعد الذکر انسان کی ترقی اصل ترقی ہے۔ یہاں جینے کے لئے کھانا، پانی، گھر، کپڑے، دوائیاںوغیرہ چاہئے۔ اس کے علاوہ اگر باقی ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں سے بیشتر چیزیں جانوروں کے یہاں بھی پائی جاتی ہیں۔ ہم کامیابی کو زیادہ کے ترازو میں تولتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے جتنی مادی چیزیں زیادہ ہونگی، اتنی ترقی زیادہ ہے، یہ غلط ہے۔ یہ بات چین میں لاگو ہوتی ہے، وہاں ترقی کا مطلب ہے لوگوں کے اذہان کی ترقی۔ یعنی وہاں پر جو ترقی پائی جاتی ہے، وہ اصل میں اذہان کی ترقی سے ممکن ہوگئی ہے۔ اس کے برعکس جو ترقی ہمارے یہاں پائی جاتی ہے، اس میں صرف مادی چیزوں کی ترقی ہے۔ اذہان کی ترقی اس میں شامل نہیں ہے۔ چین میں شاہراہوں کے ساتھ ساتھ دماغ کی شاہراہیں بھی مکمل ہیں۔ وہاں پر عقل والے حکومت کرتے ہیں، یعنی جو جس کام کا اہل ہے وہ اسی کام میں معمور ومصروف ہے۔ اس کو ایسے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ وہاں جو لوگ at the helm of affairs ہیں، وہ دانا و بینا ہیں۔ ان کے یہاں rationality پائی جاتی ہے۔ وہ کوئی چیز تعمیر بھی کرتے ہیں تو وہ قابل تحسین ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ہماری عمارتوں اور دوسری اشیاء کو ہی کل ترقی مانا جاتا ہے۔جوکہ افسوس ناک امر ہے۔ جب قابل لوگ ملک کے بنیادی ڈھانچے کو بنانے میں سارا رول نبھائیں، تب جاکر اس ملک کے ترقی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ وہ اپنے ہم خیال لوگوں کو ساتھ لے کر ملک کی تعمیر و ترقی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ وہ ان اداروں پر زیادہ دھیان دیتے ہیں جو ملک کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتے ہیں۔ تعلیم، صحت اور کاونسلنگ جیسے شعبوں میں وہ اعلیٰ دماغوں کو بروئے کار لاکر ملک کی بنیاد مزیدمستحکم کرتے ہیں۔ اس سے اعلیٰ اذہان پیدا ہوتے ہیں جو ملک کا کل سرمایہ بن جاتے ہیں۔ اگر چھوٹے الفاظ میں کہا جائے، جہاں پر human development پر کام ہوتا ہے، وہاںاصل ترقی ہے۔ Human development باہر سے بھی اور اندر سے بھی ہونی چاہئے۔
اگر ہم بھی اصل ترقی چاہتے ہیں، تو ہمیں بھی انسانی اذہان پر کام کرنا چاہیے۔ اعلیٰ یونیورسٹیاں بنانے سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ ہاں! تب کچھ بہترپھل نکل کر آسکتا ہے۔
Human resources Dev development پر جتنا کام ہوگا، اتنا ہی بہتر ہے۔ جیسے اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ جب تک نہ ملک کے لوگوں کے دماغ تعصب اور تنگ نظری سے پاک ہوجائے، تب تک حقیقی ترقی سراب ہے۔ موجودہ زمانے میں جینے کے لئے سطحی سوچ سے اوپر اٹھنا ضروری ہوگیا ہے۔ ہم سب کو چاہئے کہ حقیقی ترقی کو پانے کی کوشش کرے۔ All that glitters is not gold کے مصداق ہمیں اب جاگ جانا چاہیے۔ چیزوں کی باہری ساخت سے متاثر ہونے سے بہتر ہے کہ ہم گہرائی میں جھانکیںاور جو جس منصب کے لئے موزوں ہیں، اس کو وہ status دیا جائے۔ تعمیر اذہان سے شروع ہوتی ہے اور ملک کی ترقی پر ختم۔ اس کی شروعات ہمارے گھروں سے ہونی چاہئے۔ اس کے بعد ہم اسکولوں اور دیگر اداروں میں اس کو عملا سکتے ہیں۔ ہر کسی کو اس میں اپنا تعاون دینا ہوگا اور یہ کام وقت مانگتا ہے اور ہم وقت دینے کے لئے تیار ہونے چاہئیں۔