ڈاکٹر آزاد احمد شاہ
استاد اور شاگرد کا رشتہ ایک روحانی رشتہ ہے جو عظیم، مقدس، پاک، معزز اور ارفع جذبات پر مبنی ہوتا ہے۔ دین ِ اسلام میں استاد کا مقام و منصب بہت اعلیٰ و ارفع ہے۔ استاد کو معلّم و مربی ہونے کے سبب’’روحانی باپ‘‘کا درجہ عطا کیا گیا ہے۔ایک معلّم کے فرائض دراصل دیگر افراد کے فرائض سے کہیں زیادہ مشکل اور اہم ہیں کہ بیش تر اخلاقی، سماجی، تہذیبی و تمدّنی اور دینی و دُنیاوی ذمّے داریاں اُسی کے سَر ہوتی ہیں،گویا اصلاحِ معاشرہ کی کلید اس کے ہاتھ ہے۔
تدریس وہ پیشہ ہے، جسے صرف دین ِ اسلام ہی نہیں بلکہ دُنیا کےتمام مذاہب اور معاشروں میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ سکندرِ اعظم سے کسی نے پوچھا کہ وہ اپنے استاد کی اس درجہ تعظیم و تکریم کیوں کرتا ہے؟تو اس نے جواب دیا ’’اس کے والدین اسے آسمان سے زمین پر لائے، جب کہ استاد نے اس کو زمین سے آسمان کی بُلندیوں تک پہنچایا۔‘‘بطلیموس کااستاد کی شان یہ کہنا ہے کہ ’’استاد سے ایک گھنٹہ گفتگو، دس برس کے مطالعے سے زیادہ مفید ہے۔‘‘ بلاشبہ ماضی میں اساتذہ نے معاشرے کی تعلیم و تربیت میں ایک عہد ساز کردار ادا کیا اور اسی امر میں کوئی شک نہیں کہ اگر اساتذہ اپنے فرائض کی ادائی میں ذرّہ برابر بھی غفلت برتیں، تو معاشرے کی بنیادیں تک متاثر ہوجاتی ہیں، نتیجتاً مادّیت، نفسا نفسی اور مفاد پرستی غالب آجاتی ہے۔جس سے زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح تعلیم جیسا مقدّس پیشہ بھی اخلاقی پستی اور مادّیت کا شکار ہورہا ہے ۔
آج استاد اور شاگرد کا مقدّس رشتہ کہیں گہنا سا گیا ہے۔ معلّم اور متعلّم دونوں ہی کے لیے اب اپنی ذات زیادہ اہم قرار پائی ہے۔ استاد و شاگرد کے بیچ صدیوں پُرانے رشتے کاحُسن کافی حد تک ماند پڑ چکا ہے۔ وہ زمانے لد گئے، جب کہا جاتا تھا ، ادب تعلیم کا جوہر ہے، زیور ہے جوانی کا۔وہی شاگرد ہیں جو خدمتِ استاد کرتے ہیں۔ تب ہی تو نہ اب ارسطو جیسے اساتذہ ملتے ہیں اور نہ سکندرِ اعظم جیسے شاگرد۔ آج اسلامی معاشرے سے بھی استاد کا احترام اور کردار ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔
اساتذہ کو نصاب تک محدود کر دیا گیا ہے، حالاں کہ تدریس محض پڑھنے پڑھانے، لکھنے لکھانے یا معلومات کی ترسیل ہی کا نام نہیں، یہ علوم و افکار کی تبلیغ و ترویج کا ایک مقدّس وسیلہ ہے۔ رہی سہی کسر کمرشل اِزم نے پوری کردی ہے۔ اساتذہ نے بھی مال و زَر، مراعات اور دیگر دُنیاوی سہولتوں کی خاطر اپنے پیشے کو پسِ پشت ڈال دیا ہے، نتیجتاً تعلیمی نظام میں پس ماندگی و درماندگی ہی دیکھی جارہی ہے۔ والدین کا سرکاری اسکولز، کالجز، یونی ورسٹیز سے اعتبار اُٹھ چُکا ہے اور اُن کی اوّلین ترجیح نجی تعلیمی ادارے ہیں، اسی وجہ سے ایک طرف طبقاتی امتیاز اُجاگر ہوا، تو دوسری جانب نجی تعلیمی اداروں نے تعلیم کو کاروبار بنا دیا۔ اِس سنگین صورتِ حال میں طلبہ کا ذہنی و نفسیاتی طور پر متاثر ہونا ایک لازمی امر تھا۔اُن کی نظر میں استاد کی عزّت گھٹتی چلی گئی۔
تصویر کا دوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ تعلیمی نظام میں ’’مار نہیں، پیار‘‘ کی صدا بُلند ہوتے ہی سارا تعلیمی ماحول بدل گیا۔ والدین کے بچّوں پر سختی کے واویلے نے بچّوں کے دِل و دماغ سے اساتذہ کی قدر و منزلت ہی گھٹا دی ہے۔ آج نجی تعلیمی اداروں کی کمرشلائزیشن کے سبب شعبۂ تعلیم ایک منظّم کاروبار کی صُورت اختیار کرچُکا ہے، مگر مختلف ادوار میں حکومتی سطح پر تعلیمی شعبے سے برتی جانے والی غفلت سے سرکاری اسکولز کا معیار پست سے پست تر ہوگیا ہے، لہٰذا نجی اسکولز کی ایسی اجارہ داری ہے کہ مَن مانی فیسیزوصولنے، کتابیں، یونی فارم مہنگے داموں فروخت کرنے کے باوجود کوئی ان سے سوال نہیں کرسکتا، جب کہ ان اداروں کے اساتذہ کا بھی کوئی پُرسانِ حال نہیں۔اُن پر کام کا اس قدر بوجھ لاد دیا جاتا ہے کہ ان کی تخلیقی صلاحیتیں ختم ہی ہو کر رہ جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اِن معمارانِ قوم کی قدر کی جائے۔ تعلیمی اداروں کے ٹرسٹیز اور سماجی تنظیموں کو بھی ان کے مسائل زیرِ غور لا کر اُن کے حل کی کوششیں کرنی چاہئیں۔ حکومت کو چاہیے کہ تعلیمی شعبے کو کاروبار بنانے اور اساتذہ کا استحصال کرنے والوں کے خلاف نہ صرف ایکشن لے بلکہ اساتذہ کی تکریم و تعظیم میں اضافے کے لیے مختلف پروگرام بھی تشکیل دے۔ کم از کم ہر سرکاری دفتر میں استاد کا کام ترجیحی بنیاد پر ہو۔ مقامی طور پر اساتدہ کو رہایشی اور سفری سہولتیں فراہم کی جائیں۔ تاکہ والدین، اساتذہ اور طلبہ کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کا خاتمہ ہو سکے۔ دُنیا بھر میں بہت تیزی سے تبدیلیاں رُونما ہو رہی ہیں اور تدریس و اکتساب پر بھی دُنیا کے بدلتے مزاج اور جدّت طرازیوں کا بہت اثر ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایک تلخ پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارا طرزِ تدریس خاصا غیر مؤثر ہے۔ اساتذہ کا معیارِ تدریس اور کتب خانے آج بھی وہی ہیں، جو عشروں پہلے تھے۔ حالانکہ آج کے ’’ڈیجیٹل رجحان کے حامل طلبہ‘‘ کے لیے ٹیکنالوجی کے ذریعے تدریسی امور مؤثر بنانا، نئے تدریسی امور اور زاویوں پر نہ صرف سنجیدگی سے غور و خوض کرنا، بلکہ نصاب پر بھی ہر چار پانچ برس بعد نظرِ ثانی از حد ضروری ہے، تب ہی ہم زمانے کے ساتھ چلنے کے قابل ہو سکیں گے۔
’’آج کے ’’اسمارٹ طلبہ‘‘ کی اکتسابی انفرادیت، نفسیات، جذبات اور رجحانات و میلانات کو ملحوظ رکھ کر ان کے قلب و ذہن میں گھر بنائیں، تاکہ ان کی تدریس بھی اسمارٹ کہلائے۔ مادّہ پرستی سے قطعِ نظر اپنے پیشے کے اصل منصب اور معاشرے میں اپنی حیثیت کے مطابق تعمیرِ انسانیت اور اصلاحِ معاشرہ کی ذمّے داری پورے خُلوص، دیانت و صداقت سے ادا کی جائے، تو عین ممکن ہے کہ آج کے مایوس طلبہ میں بھی ماضی کے طلبہ جیسا جوش و جذبہ، لگن، اور عزّت و احترام پیدا ہو۔
استاد اور شاگرد کا روحانی رشتہ جو ایک عظیم اور مقدس رشتہ ہے مگر کچھ افراد نے اس رشتے کی پاکیزگی اور تقدیس پر غلیظ دھبے لگائے ،جس سے یہ پاک رشتہ ہدف تنقید بن گیا مگر ہر ایک استاد کو شک کی نگاہ سے دیکھنا اس عظیم پیشے سے ناانصافی اور اس عظیم شخص کی بے عزتی اور تحقیر ہے کیونکہ ہر استاد رہزن نہیں ہوتا اور نہ ہر طالب علم آوارہ۔استاد عزتوں کا محافظ بھی ہے۔طلباء کی فکر کرنے والا بھی ان کا مستقبل سنوارنے والا بھی اور ان کے بہترین مستقبل کے لئے دعاگو بھی ۔لہٰذا آخر میں سبھی والدین سے میری گزارش ہے کہ اس رشتے کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔اس رشتے میں بلا وجہ کوئی قدغن نہ لگائیں۔استاد والد ہے اور اس کے طلباء و طالبات اس کے بیٹے اور بیٹیاں۔لہٰذا باپ کو اولاد سے جدا کرنا مناسب اور اچھا اقدام نہیں ہے۔ اللہ ہم سب کو اس مقدس اور پاک روحانی رشتے کو سمجھنے کی توفیق دے اور اس کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
(موصوف ایک معروف اسلامی اسکالر ہیں)
[email protected]>