آہ ! چراغ بجھ رہے ہیں افسانہ

ریحانہ شجر

بیٹے کے ہاتھوں ماں کا قتل ہوا دیکھ کر میرا روم روم کانپ اٹھا ، غصے اور نفرت کا ملا جلا ردعمل مجھ پر طاری تھا ۔ پولیس اسٹیشن میں اپنے کیبن میں بیٹھا حیران و پریشان یہی سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ آخر کوئی اپنی ماں کو اتنی بے رحمی سے کیسے ابدی نیند سُلا سکتا ہے ۔ پتہ نہیں کتنی دیر تک نبیل نام کے اس نوجوان کے بارے میں سوچتا رہا جس نے یہ غیر انسانی فعل انجام دیا تھا ۔ ایسے میں باہر سے چلانے کی آواز نے مجھے چونکا دیا ۔میں نے دروازے کی اور نظریں اٹھائیں تو دیکھا دس سال کا بچہ مجھے بچائو مجھے بچاؤ ! چلاتا ہوا پولیس اسٹیشن کے اندر میرے آفس کی اور آرہا تھا۔میں نے اس کو اندر آنے کا اشارہ کرکے پوچھا بات کیا ہے بیٹا کیوں چلا رہے ہو ؟
وہ میرے سامنے بیٹھ کر کہنے لگا۔’سر!’ مجھے بچا لیجئے‘!۔ اس کے بعد ہی اس نے اپنے اسکول بیگ سے ایک چھوٹی سی تھیلی نکالی اور تھیلی میری طرف بڑھا کر کہنے لگا ’سر‘! یہ منشیات بھری تھیلی سکول جاتے ہوئے راستے میں کسی نے میرے ہاتھ دے کر کہا آگے پل کے پار ایک آدمی کھڑا ملے گا اس کو یہ تھیلی دےدینا۔میں روز آکر ایک تھیلی دیا کروں گا اور یہ کام تم روز کرو گے، اس کے عوض میں آپکو جو چاہوگے، ملے گا۔’سر‘ میں نے انکار کیا۔مگر اس نے مجھے خوفزدہ کیا۔
میں ہانپتے کانپتے کسی طرح پولیس سٹیشن پہنچ گیا تاکہ میں آپ کو اطلاع دے سکوں۔ انسپکٹر صاحب مجھے بچا لیجئے! میری ماں کو اسی زہر نے مارا۔ نبیل نے میری ماں کا قتل نشے میں دُت ہو کر کیا تھا۔
نَبیل نام سن کر میں نے بچے سے اس کا نام اور مقتولہ سے اس کے رشتے کے بارے میں دریافت کیا۔
بچے نے کہا میں مقتولہ کا چھوٹا بیٹا اَیان ہوں اور میری ماں کا قاتل نَبیل میرا بڑا بھائی ہے۔ میرا بھائی کالج کا ہونہار طالب علم تھا۔ نہ جانے بھائی نبیل کیسے بری صحبت میں پڑھ گیا اور وہ روز نشہ کرکے لوٹتا تھا۔ گھر سے کالج کیلئے نکلتا لیکن کالج کبھی کبھار ہی جاتا تھا۔ شام کو دیر سے آنے پر اگر ماں پوچھتی اتنی دیر تک کہاں تھے تو بھائی کہتا کہ ’میں غریب بچوں کو درس دینے گیا تھا‘۔پر وہ کبھی درسگاہ جاتا ہی نہیں تھا اور امی کو جھوٹ بول کر دھوکہ دیتا رہا ۔ اگر امی کبھی کسی وجہ سے بھائی کو پیسے دینے سے انکار کرتی تو وہ رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے ادھار لیتا اور منشیات خرید کر اپنے نشے کی طلب پوری کرتا۔ میں نے امی کو کئی بار اس بارے میں آگاہ کیا لیکن امی نے یقین نہیں کیا کیونکہ اس کو بھائی کی قابلیت پر بڑا ناز تھا اس لیئے آنکھ بند کرکے بھائی پر بھروسہ کرتی رہی ۔ جب تک امی کو یقین ہوگیا کہ نبیل ڈرگس لیتا ہے تب تک کافی دیر ہوچکی تھی۔ منشیات کی وجہ سے بھائی ہم سے کیا ،اپنے آپ سے بھی بے خبر ہو گیا تھا۔ نشے میں مدہوش جب وہ شام کو گھر لوٹتا تو وہ سیدھے کمرے میں جاکر جوتے پہن کر ہی سو جاتا تھا اور پھر امی اس کے جوتے اتار کر اس کو باقاعدہ بستر پر لٹا دیتی تھی۔اس کی حالت پچھلے چند مہینوں سے مزید ابتر ہو گئی تھی کیونکہ اب روز ہی بستر گیلا کر دیتا تھا۔ صبح اس کے کمرے سے اتنی بدبو آتی تھی کہ گھر میں بیٹھنا محال ہونے لگا تھا۔ امی کا قتل بھی نبیل نے منشیات کی خاطر کیا۔ کیونکہ اس دن امی نے نبیل کو پیسے دینے سے انکار کردیا تھا۔نبیل نے دوپہر کے بعد گھر آکر پیسے لینے کی کوشش کی لیکن امی نے اس وقت بھی روک لیا جس کے بعد نبیل نے امی کی جان ہی لے لی اور پیسے لے کر بھاگ گیا۔
کچھ دیر سانس لینے کے بعد اَیان نے مزید کہا ۔ میں نہیں چاہتا میری حالت میرے بھائی کے جیسی ہو۔ مہربانی کرکے مجھے بچا لیجئے! اب میرا اِس دنیا میں کوئی نہیں ہے ۔ بابا ہمیں اور ماں کو بہت پہلے چھوڑ کر چلا گیا تھا ۔ امی کا قتل کرکے بھائی نبیل جیل میں بند ہے۔
دس سال کا اَیان ایک ہی سانس میں ساری باتیں کہہ گیا۔اس کی باتیں سن کر مجھے دکھ ہوا اور یوں لگا دس برس کی مختصر عمر میں اَیان دس صدیاں دیکھ چکا تھا۔
میں نے بےچین ہو کر ایان سے اس اجنبی کے حلیے کے بارے میں پوچھا جس نے منشیات بھری تھیلی دے کر پل کے پار کسی دوسرے بندے کو دینے کیلئے کہا تھا ۔ اَیان نے کہا ’سر‘ اس کا چہرہ ماسک سے ڈھکا ہوا تھا اسلئے پہچان نہیں پایا۔
میں نے اَیان کو بھروسہ دلایا اور بے فکر ہو کر گھر جانے کو کہا ۔
اس کے بعد میں نے ٹیم کے ساتھ مشورہ کرکے دوسرے دن سے ایان کے آگے پیچھے بنا وردی کے چند لوگوں کو ڈیوٹی پر لگا دیا تاکہ منشیات سے جڑا مجرم پکڑا جائے۔ کیونکہ یہ بات طے تھی کہ وہ منشیات کی تھیلی لینے اَیان کے پاس ضرور آیگا۔ اَیان کو بُلا کر ہدایت دی کہ دھیان سے اس آدمی کا حلیہ یاد رکھنے کی کوشش کرے۔
جیسا سوچا تھا ویسا کچھ نہیں ہوا۔کئی دنوں تک کوششیں جاری رکھنے کے باوجود ہمارے ہاتھ کوئی کڑی نہیں آئی جو مجرم تک پہنچنے میں کارگر ثابت ہوسکے کیونکہ مجرم اَیان کے آس پاس نہیں آتا تھا۔
چند ایام گزرنے کے بعد میں نے دوبارہ اَیان سے اس بندے کے بارے میں کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات یاد کرنے کو کہا جس نے یہ تھیلی پل کے پار کسی کو دینے کیلئے کہا تھا۔ ایان نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا’ نہیں ’سر ‘، کوشش کرکے بھی مجھے کچھ یاد نہیں آتا ہے‘۔’ شاید آپ لوگوں کی وجہ سے وہ میرے پاس آنے سے ڈرتا ہے۔ یا پھر اس نے کسی دوسرے بچے کوڈرا دھمکا کے اس کام میں لگا دیا ہو۔منشیات کی زہریلی ہوا نے میرے بھائی جیسا روشن چراغ بجھا کر ہمارے گھر کو گمنام اندھیروں کے حوالے کر دیا یہ آگ آگے بھی نہ جانے کتنے گھر پھونک دے گی، کسی کو نہیں پتہ‘۔
اَیان آج بھی اپنی عمر سے بڑی بات کہہ گیا۔ میں نے اَیان کو ایک بندے کے ساتھ گھر بھیج دیا۔
ایان گھر جانے لگا میرے کیبن کے دروازے سے مڑ کے واپس آکے کہنے لگا ’سر‘ ایک بات یاد آئی، شاید اس سے آپ کو کوئی مدد مل سکے۔’سر‘ میں نے اس بندے میں ایک الگ بات نوٹس کی تھی ۔
میں نے جوش میں آکر کہا جلدی بولو کیا ہے وہ۔
اَیان بولا، ’سر‘اس آدمی نے کالے رنگ کا منفرد جوتا پہن رکھا تھا جس کی ایک جانب ہلکے دھات کے سکے پر کھوپڑی اور کراس بون ایموجی(Skull and Crossbones Emoji) کی علامت بنی ہوئی تھی۔یہ کہہ کر وہ میرے کیبن سے باہر نکلا اور کوریڈور میں اس کے ہاتھ سے بستہ گر گیا جس کو اٹھانے کے لئے وہ جھک گیا۔ اچانک اس کے منہ سے !نہیں ! کی آواز نکلی اور وہ زمین پر گر گیا۔ میں باہر آکر اس سے اٹھانے کوشش کرنے لگا لیکن وہ ڈر کے مارے دور بھاگتا چلا گیا اور کوریڈور میں موجود دبے پاؤں چلتے ایک نامور شہری کے منفرد جوتے کی طرف دہشت بھری نظروں سے دیکھتا ہوا دم توڑ بیٹھا۔

���
وزیر باغ، سرینگر،[email protected]