۔6جنوری 1993: جب سوپور میں آگ وآہن کا خونی کھیل کھیلا گیا

سرینگر// وادی کے شمالی قصبہ سوپور میں6جنوری1993کو سرحدی حفاظتی فورس(بی ایس ایف) اہلکاروں نے53عام شہریوں کو گولیوں سے بھون ڈالا،جبکہ چھوٹا لندن کے نام سے مشہور سوپور بازار کو بھی نذر آتش کیاگیا۔مرکزی تفتیشی بیور (سی بی آئی)کا تاہم ماننا ہے کہ اس واقعے میں،ملوث 19اہلکاروں اور افسراں کو بی ایس ایف ایکٹ کے تحت کورٹ مارشل کے دوران سزائیں بھی دی گئیںاور سر نو انہیں قصور وار نہیں ٹھرایا جاسکتا۔مشہور رسالہ’ٹایم میگزئن‘‘ نے18جنوری1993کو سوپور واقعے سے متعلق خبر کی رپورٹ کو’’خونی لہر میں اضافہ‘‘ کا عنوان دیا تھا۔یکم اپریل 2012کو انسانی حقوق کارکن اورانٹرنیشنل فورم فار جسٹس کے چیئرمین محمد احسن اونتو نے ایک عرضی زیر نمبر SHRC/111/Sopore/2012 بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میںدائر کی،جس میں سوپور قتل عام کی تحقیقات کی اپیل کی گئی۔مرکزی تفتیشی بیورو(سی بی آئی) نے انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کے پاس جو رپورٹ پیش کی،اس میں33شہریوں کی ہلاکت کی شناخت کی تصدیق کی گئی۔سی بی آئی نے اس رپورٹ میں کہا کہ حکومت ہند کے محکمہ پرسنل اینڈ ٹرینگ کی طرف سے اجراء کی گئی نوٹیفکیشن نمبر 228/3/93-AVD.IIمحرر20-01-1993, کے تحت جموں کشمیر کی درخواست13جنوری1993کوتحقیقات کیلئے’’ڈی ایس پی ای‘‘ کے سپرد کیا،جبکہ ایف آئی آر زیر نمبر  8/93پولیس تھانہ سوپور،کے کیس کو ریاستی حکومت کی ہدایت پر جانچ کیلئے کرائم برانچ سرینگر کے سپرد کیا۔سی بی آئی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ،تحقیقات کے دوران،زخمی گواہ،اس واقعے میں ملوث اہلکاروں کی شناخت کرنے میں ناکام ہوئے،اور انہوں نے فائرنگ و کراس فائرنگ کی تفصیلات فراہم نہیں کی۔رپورٹ کے مطابق اس صورتحال میں یہ بات ممکن نہ ہو سکیں کہ اس مبینہ واقعے میں ملوث افراد کی نشاندہی ہوسکیں۔اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ شکایت گزار محمد الیاس بھی ’’سی بی آئی‘‘ کے سامنے نہیں آیا،تاکہ انہوں نے ایف آئی آر میں جو الزامات عائد کئے  تھے،وہ انکو ثابت کرسکے۔سی بی آئی رپورٹ کے مطابق،اس لئے تحقیقات کے دوران یہ اس واقعے میں44 شہریوں کی ہلاکت اور14کے زخمی ہونے کی بات سامنے نہیں آئی کہ،انہیں کس نے ہلاک کیا۔مرکزی تفتیشی بیورو کی پورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں سرحدی حفاطتی فورس نے تحقیقات کی پہل کی،جبکہ جنرل سیکورٹی فورس کوٹ اور بی ایس ایف نے ایک مکتوب زیر نمبر 06/1/93-CLO/BSF/5733محرر 11/10/2001 میں اس تحقیقات کے نتیجہ کے بارے میں خبر دی ،جس میں کہا گیا کہ،ملوث پی ایس ایف اہلکار اور افسراں کو بی ایس ایف ایکٹ1968کے تحت زیر دفعات  304, 307اور 436 r/w  34آر پی سی کورٹ مارشل کیا،اور اس دوران انہیں سزائیں بھی دی گئیں۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ایک ہی غلطی کیلئے کسی قصور وار کو دو مرتبہ سزا نہیں دی جاسکتی۔ مرکزی تفتیشی بیورو’’سی بی آئی‘‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کیلئے جسٹس امرجیت کی سربراہی میں یک نفری کمیشن بھی تشکیل دیا۔اس سلسلے میں کوششیں کی  گئی کہ اس تحقیقات کی کاپی حاصل ہو،تاہم حکومت ہند نئی دہلی کے ڈائریکٹر،محکمہ امور جموں کشمیر،ائے کے سری واستا نے بتایا کہ سوپور واقعے کی تحقیقات کیلئے جسٹس چودھری کی سربراہی میں کمیشن آف انکوائری کی معیاد30ستمبر1994کو پوری ہوئی اور اس کے بعد اس میں توسیع نہیں کی گئی۔اس لئے کمیشن آف انکوائری کی طرف سے تحقیقاتی عمل شروع ہی نہیں ہوا۔اس لئے اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ،اس سلسلے میں کوئی رپورٹ پیش کی گئی۔ ’’سی بی آئی‘‘ نے اس کیس کو بند کرتے ہوئے کہا کہ20سال پہلے ہی گزر چکے ہیں،اور اس دوران تحقیقات کے تمام پہلوئوں پر کام کیا گیا،تاہم مندرجہ بالا وجوہات کی بنیاد پرکوئی بھی نتیجہ حاصل نہیں ہوا۔ قانون کی طرف سے قائم کئے گئے کورٹ نے پہلے ہی اس واقعے میں مبینہ طور پر ملوث اہلکاروں کو کٹہرے میں کھڑا کیا ،اور سزائیں بھی دی گئی۔اس لئے سی بی آئی نے پیشگی میں ہی بیان کردہ حقائق اور صورتحال کے مد نظر عدالت میں کیس سے متعلق2علیحدہ تکمیلی رپورٹ17جولائی2013کوپیش کی۔رپورٹ میں کہا گیا’’ تمام ملزموں کو کورٹ آف انکوائری اور پیش کردہ ثبوتوں کی بنیاد پر قصور وار ٹھرایا گیا،اور کورٹ نے انہیں سزائیں دی،جبکہ قانون کی رئو سے کسی کو بھی ایک ہی جرم کیلئے دو بار سزائیں نہیں دی جاسکتی،کیونکہ یہ دوگنی سزا ہوگی‘‘۔سوپور قتل عام کا معاملہ فی الوقت بھی انسانی حقوق کے مقامی کمیشن میں زیر سماعت ہیں،اور متاثرین سوپور25سال گزر جانے کے بعد بھی انصاف کے منتظر ہیں۔