سرینگر//نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ نے کہا کہ وہ اس سوال سے جدوجہد کر رہے ہیں کہ کیا انہیں سیاست میں آگے بھی رہنا چاہئے یا نہیں، جبکہ ان کے پاس اس سوال کا کوئی آسان جواب نہیں ہے اوراور ان کے دل میں بہت سارے شبہات ہیں۔ کے این ایس کے مطابق جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر و سابق وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ نے کہا میرے دل میں ایک سوال گشت کر رہا ہے کہ کیا میں مجھے آگے سیاست میں رہنا چاہے یا نہیںاور اس سوال کا ان کے پاس آسان جواب نہیں ہے اور یہ سوال آسان نہیں ہے ۔انہوں نے کہا 5اگست کو جموں و کشمیر کے ساتھ جو کچھ کیا گیا اس سے صلح کرنا آسان نہیں ہے۔عمر عبد اللہ ایک معروف قومی نیوز پوٹل کے سینئرصحافی کوگزشتہ رات انٹرویو دے رہے تھے جس دورا ن انہوں اس بات کا ذکر کیا ۔انہوں کہا اس سوال کاکوئی آسان جواب نہیں ہے میرے پاس۔انہوں نے کہا یہ ایک نیشنل کانفرنس کے نائب صدر نے کہا کہ اگست5 اگست 2019، کو جموں و کشمیر کے ساتھ جو کچھ ہوا،اُسے صلح کرناآسان نہیں ہے جب مرکزی حکومت نے جموں و کشمیرکی خصوصی حیثیت کو ختم کیا اور ریاست کو جموں و کشمیر اور لداخ دو مرکزی خطوں میں تقسیم کیا۔انہوں نے کہامجھے موجودہ صورت حال میں بہت مشکل لگ رہا ہے۔ جموں وکشمیر کے ساتھ 16 یا 18 ماہ قبل کیا،کیا گیا تھا اس سے صلح کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ سوال نہیں ہے کہ کچھ لوگوں کو کچھ مہینوں کے بعد حراست میں لیا گیا اور رہا کیا گیا۔ یہ ناانصافی ہے جو جموں و کشمیر کے ساتھ کی گئی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا ، ’’میں اتنا پرجوش نہیں ہوں جیسا کہ 18 ماہ پہلے تھا۔‘‘پچھلے ڈیڑھ سال میں ، میں آج بہت حیرت زدہ اور مایوس ہوں۔ جو میں5 اگست سے پہلے نہیں تھا۔عمر عبد اللہ نے کہا مجھے آج خود کو بنیادی سیاسی سرگرمیاں کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کرنا کہیں زیادہ مشکل لگتا ہے اور ڈیڑھ سال قبل ایسا نہیں تھا۔ اس سے مجھے کوئی جوش و خروش نہیں آتا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا نیشنل کانفرنس کے ورکر سے لے کر منسٹر تک نے قربانی دی ہے اور پھر ان لوگوں کو بھی قوم دشمن کہنا کون سی دانائی ہے ۔