مشتاق الاسلام
پلوامہ //پلوامہ کو ضلع بنے ہوئے 47 سال ہو چکے ہیں، مگر آج تک یہاں منی سیکریٹریٹ قائم نہیں ہو سکا ، جو عوام کیلئے ایک خواب ہے۔ یہ بات حیران کن ہے کہ 326 دیہات پر مشتمل ضلع پلوامہ میں لوگوں کو اپنے مسائل کے ازالہ کیلئے ضلع ہیڈ کوارٹر پر مختلف علاقوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ لیکن ایک ہی چھت کے نیچے سبھی ضلعی دفاتر کا قیام ضروری نہیں سمجھا گیا ہے۔اس سے بھی حران کن بات یہ ہے کہ غلام نبی آزاد کی سرکار میں سبھی اضلاع میں منی سیکریٹریٹ قائم کئے گئے لیکن پلوامہ واحد ضلع تھا جہاں اسکی تعمیر نہیں ہوسکی۔منی سیکرٹریٹ میں ضلع کے تمام اہم دفاتر ایک ہی جگہ پر کام کرتے ہیں۔تاکہ عوام کو ایک ہی چھت کے نیچے اپنی ضروریات کی خدمات حاصل کر ہوسکیں۔ منی سیکریٹریٹ نہ صرف عوامی خدمات فراہم کرنے کے عمل کو تیز کرتا ہے، بلکہ گورننس کی کارکردگی میں بھی بہتری لاتا ہے۔ پلوامہ کو سال 1979 میں ضلع کا درجہ حاصل ہوا ہے۔پلوامہ کو چھوڑ کر جموں و کشمیر کے تمام اضلاع میں منی سیکرٹریٹ قائم کئے جاچکے ہیں۔ٹریڈرس فیڈریشن پلوامہ کا کہنا ہے کہ منی سیکرٹریٹ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،منی سیکریٹریٹ کے ذریعے مختلف سرکاری دفاتر کو ایک جگہ پر مرکوز کرنے سے شہریوں کو ایک ہی مقام پر خدمات حاصل کرنے کی سہولت ملتی ہے۔ اس کے علاوہ، منی سیکرٹریٹ کے قیام سے عوام کو درجنوں دفاتر کے چکر لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی، جو وقت اور توانائی کا ضیاع ہے۔منی سیکرٹریٹ ضلع کے تمام اہم دفاتر کا مرکز ہوتا ہے لیکن پلوامہ اس معاملے میں بدقسمت رہا ہے۔منی سیکرٹریٹ میں ایک بڑے آڈیٹوریم کی موجودگی عوامی تقریبات اور اجلاسوں کیلئے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے، جہاں سینکڑوں افراد بیک وقت بیٹھ سکتے ہیں۔پلوامہ کے لوگ منی سیکرٹریٹ کے قیام کا طویل عرصے سے مطالبہ کر رہے ہیں، اور انہوں نے متعدد بار حکام سے اس حوالے سے درخواستیں بھی دی ہیں۔ تاہم، ابھی تک اس خواب کو حقیقت میں تبدیل نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ حکومتی عدم توجہی ہے۔ ضلع میں مختلف سرکاری دفاتر موجود ہیں، لیکن عوام کو اپنی ضروریات کے لیے مختلف جگہوں پر جانا پڑتا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے منی سیکرٹریٹ کا قیام ضروری بن گیا ہے۔ اس کے قیام سے نہ صرف عوامی خدمات میں اضافہ ہوگا، بلکہ حکومتی مشینری کی کارکردگی بھی بہتر ہوگی۔پلوامہ کے معروف سماجی کارکن اشفاق احمد کا کہنا ہے پلوامہ میں منی سیکرٹریٹ کا قیام اب ایک عوامی ضرورت بن چکا ہے، جو کئی دہائیوں سے التوا کا شکار ہے۔عوامی مسائل اور ضروریات کے پیش نظر حکومت کو اس معاملے پر فوری توجہ دینی چاہیے تاکہ اس خواب کو حقیقت میں تبدیل کیا جا سکے اور پلوامہ کے عوام کو وہ سہولتیں مل سکیں جن کی وہ دہائیوں سے منتظر ہیں۔