سرینگر//بانڈی پورہ میں26برس قبل مبینہ شہری ہلاکتوں پر بشری حقوق کے ریاستی کمیشن نے ریاستی پولیس کے سربراہ کو یکم فروری تک رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔بانڈی پورہ میں سال1991میں ہوئی ہلاکتوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کمیشن کے سربراہ جسٹس(ر) بلال نازکی نے ریاستی پولیس کے سربراہ کو تعمیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔اس سے قبل کمیشن میں جمعہ کو اس کیس کی سماعت ہوئی جس کے دوران کیس پر روشنی ڈالی گئی۔انٹرنیشنل فورم فار جسٹس کے چیئرمین نے سال2013میں اس کیس سے متعلق عرضی دائر کرتے ہوئے کمیشن کو نوٹس لینے کی درخواست کی تھی۔ عرضی میں کہا گیا تھا کہ12ستمبر 1991کو فوج کی ایک برگیڈ نے بانڈی پورہ کے کئی علاقوں کو محاصرے میں لیا،جبکہ اس بات کا الزام عائد کیا گیا تھا19ستمبر تک جاری رہنے والے اس آپریشن میں22 شہریوں کو ہلاک کیا گیا۔عرضی میں کہا گیا کہ اس دن فوج نے اندھا دھند طریقے سے فائرئنگ کی،جس میں ایک شہری بشیر احمد شاہ ساکن کوئل مقام جان بحق ہوا۔س سلسلے میں22مارچ2013کو ڈی جی سے رپورٹ طلب کی گئی۔پولیس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ پولیس کو اس دن مصدقہ اطلاع ملی کہ فوج نے اونہ گام سے کیونسہ تک محاصرہ کیا۔اس دوران جنگجوﺅں نے فوج پر حملہ کیا،جبکہ فورسز نے بھی جواب میں گولیاں چلائی،اور کراس فائرنگ میں بشیر احمد شاہ نامی ایک شہری جان بحق ہوا۔پولیس نے اس سلسلے میں ایک ایف آئی آر زیر نمبر127/1991بھی درج کیا اور تحقیقات کا سلسلہ شروع کیا۔پولیس سٹیشن سوپور کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا،اس دوران کیونسہ میں فوج اور جنگجوﺅن کے درمیان جھڑپ ہوئی جس میں ایک عسکریت پسند ممتاز احمد ہلاک جبکہ ایک اور جنگجو زخمی حالت میں فرار ہوا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ تحقیقات کے دوران15 ستمبر1991کو فوج کے گرنیڈیڈرس کے لیفٹنٹ رامائن بسوال کی طرف سے ایک مکتوب موصول ہوا،جس میں کہا گیا کہ کہر ناگ میں جنگجوﺅں کے ساتھ ایک جھڑپ میں6 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ تحقیقات کے دوران15ستمبر کو آلوسہ کے قبرستان میں7نعشیں برآمد کی گئی،جن میں سے2عدم شناخت نعشیں بھی شامل ہیں،اور انہیں مقامی لوگوں کے حوالے کیا گیا۔۔رپورٹ کے مطابق ایک اور نعش عبدالغفار شیخ ساکن آشٹینگو کو بھی پولیس تھانہ سوپور نے پولیس تھانہ بانڈی پورہ کے سپرد کیا ،پولیس تھانہ پٹن نے بتایا کہ آپریشن کے دوران ایک پاکستانی تربیت یافتہ جنگجو عبدالماجد کشمیری مارا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے نہیں آئی کہ مہلوکین کسی ممنوعہ تنظیم سے وابستہ تھے یا نہیں،جس کے بعد کیس کو بند کیا گیا۔