سرینگر// حریت (گ) نے کہا ہے کہ 24برس گذرنے کے بعد تین کشمیری نوجوانوں لطیف احمد واجہ، مرزا نثار حسین اور محمد علی بٹ کی رہائی انصاف کے اداروںپر سوالیہ نشان لگاتی ہے کہ کشمیری قائدین اور کارکنان جو بلاشبہ فرضی الزامات کے تحت انتقامی کارروائیوں کے نتیجے میں پابند سلاسل کئے گئے اور کئے جارہے ہیں انہیں بے قصور ثابت ہونے تک ابھی انصاف اور عدل کو کتنا انتظارکرنا پڑے گا۔ حریت نے یہ سوال بھی کیا کہ ان معصومین کے جو 24برس ریاست سے دور جیلوں میں گذرے وہ برس اور ان کے والدین اور اہل خانہ کے آہ وآنسو کون لوٹا دے گا۔ حریت نے NIAکی طرف سے گرفتار ہوئے مزاحمتی قائدین محمد یٰسین ملک شبیر احمد شاہ، مسرت عالم بٹ، ڈاکٹر غلام محمد بٹ، آسیہ اندرابی، الطاف احمد شاہ، ایاز اکبر، پیر سیف اللہ، راجہ معراج الدین، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین، نعیم احمد خان، شاہد الاسلام، فاروق احمد ڈار، ظہور احمد وٹالی، سید شاہد یوسف، سید شکیل احمد بھی عدالتی استحصال کے شکار بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر افراد کے 2سال نظربندی کے مکمل ہوگئے، لیکن اب تک عدالت ان کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں کرسکی۔ انہوں نے کہا کہ اُن میں سے اکثر محبوسین جن میں محمد یٰسین ملک، شبیر احمد شاہ، مسرت عالم بٹ، ڈاکٹر غلام محمد بٹ، الطاف احمد شاہ، پیر سیف اللہ، آسیہ اندرابی اور ظہور احمد وٹالی کی صحت بہت حد تک خراب ہوگئی ہے اور مسلسل نظربندی سے ان کی زندگیوں کو بھی شدید خطرہ لاحق ہونے کا اندیشہ ہے۔ ایاز اکبر کی اہلیہ کینسر کے موزی مرض میں مبتلا ہے۔ انسانی حقوق کی دہائی دینے والوں کو چاہیے تھا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کو رہا کیا جاتا، تاکہ وہ اپنی اہلیہ اور بچوں کی ڈھارس بندھاتے، لیکن تمام انسانی ہمدردی کے جذبے سے عاری لوگ کشمیری مسلمان کو جرم بے گناہی میں سزا دے کر اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کے ساتھ ساتھ دیش بھگتی کے نام پر انتخابی معرکے بھی بڑی آسانی سے سر کرتے ہیں۔ اس دوران حریت چیرمین سید علی گیلانی کی ہدایت پر حریت ترجمان حکیم عبدالرشید نے 24؍سال کے بعد جرمِ بے گناہی میں اب عدلیہ کی طرف سے بے قصور قرار دئے گئے کشمیری نوجوانوں محمد لطیف واجہ اور مرزا نثار حسین کے گھر جاکر انہیں مبارکباد پیش کی اور گیلانی صاحب کی طرف سے اُن کے اور ان کے اہل خانہ کے صبراستقلال کو خراج تحسین پیش کیا جو اس طویل عرصہ تک بناکسی قصور کے بے پناہ مصائب برادشت کرتے رہے۔