سرنکوٹ// 2014 کے تباہ کن سیلاب میں ریاست بھر کی طرح سرنکوٹ میں بڑے پیمانے پر نقصان ہوا تھا۔ اس دوران جہاں لوگوں کی زمینیں اوریگر املاک تباہ ہوئی وہیں کئی پل بھی منہدم ہو گئے جن میں سے کچھ اب تک تعمیر نہیں کئے جاسکے جس کی وجہ سے کئی علاقوں کے لوگ سڑک روابط سے محروم ہیں۔ اسی طرح سیلاب کی نذر ہو جانے والا پرائمری سکول بیلہ سنئی بھی ابھی تک مرمت کا منتظر ہے۔سیلاب میں متاثر ہونے والوں کو پانچ سال بعد بھی امداد نہیں ملی ۔سیلاب کے دوران دریائے سرن کے کنارے کئی مقامات پر ہوئی تباہی کے آثار آج بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ ایسے علاقے بن گئے ہیں جہاں نہ لوگ فصل اگائی جاسکتی ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا کام کیاجاسکتاہے۔بیلہ کے لال حسین محمد،رشید محمد ایوب، محمد اقبال محمداورفاروق محمد وسیلم خواجہ نے کہا کہ ان کی کنالوںکی کنال اراضی تباہ ہوگئی ، متعلقہ حکام کو کئی مرتبہ نقصان کے بارے میں مطلع کیاگیااور افسران موقعہ پر آئے ، طفل تسلیاں بھی دیں مگر عملی سطح پر کوئی اقدام نہیں کیاگیا۔ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کے افسران نے ایک بار نہیں بلکہ کئی بار دورہ کیا اور نقصان کا تخمینہ بھی لگایامگر حاصل کچھ نہیں ہوا۔اسی طرح سے بیلہ پوٹھہ کے اموز منہاس، شوکت علی و سرپنچ پوٹھہ لوہر محمد بشیر شیخ نے بتایا کہ انہیں امداد کے نام پرکچھ نہیں ملا، فلڈکنٹرول واریگیشن اور محکمہ تعمیرات عامہ کے افسران سے باز پرس ہوناچاہئے کہ آج تک تباہ ہونے والی سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کیوںنہیں ہوئی ۔ ان کا کہنا تھاکہ دریاپر بنائے گئے پل منہدم ہوجانے کے بعد اب ان سے سفر کرنا طلباء اور دیگر لوگوں کیلئے خطرہ ہے،ان کی زمینیں بھی نہیں رہیں اور بنیادی ڈھانچہ بھی تباہ ہوا۔انہوں نے مزید بتایاکہ کلرکٹل سنئی سڑک اور پل دریا میں بہہ گئے لیکن حکام کی طرف سے ان کی مرمت نہیں کی گئی ۔سنئی سے پیر کریم شاہ غازی درگاہ کلرکٹل جانے والی سڑک بھی مرمت کی منتظر ہے جس کے نتیجہ میں زیارت پر جانے والے زائرین کو پیدل چلناپڑتاہے ۔سنئی سے لیکر درگاہ تک 1200 میٹر سڑک کا6 کروڑ 25 لاکھ کا تخمینہ بناتھاجس میں سے 3.30کروڑ روپے صرف کئے گئے مگر عوام کی مشکلات جوں کی توں ہیں ۔ دھندک کے شہزاد خان اور عظیم خان نے بتایا کہ ان کی زمینیں دھندک بیلہ میں تھیں جن کے تباہ ہونے پر انہیں کوئی امداد نہیں ملی ۔وہیں دھندک سے مرہوٹ جانے والی سڑک کا پل بھی دریا برد ہوا جس پر محکمہ تعمیرات عامہ نے تین پاوے بنائے لیکن اس سے آگے کام نہیں بڑھ پایا۔مقامی لوگوں کاکہناہے کہ ان کے ذریعہ معاش کا دارو مدار انہی زمینوں پر ہے جن کی تباہی پر امداد یا معاوضہ کا نہ ملنا افسوسناک ہے ۔
متاثرین میرے پاس آئیں:ڈی سی
ضلع ترقیاتی کمشنر پونچھ راہل یادو کاکہناہے کہ اگر کسی متاثر ہ شخص کو معاوضہ کا کوئی مسئلہ ہے تو وہ ان کے پاس آئے اور اس کی مدد کی جائے گی ۔انہوں نے بتایاکہ امداد کیلئے فائلیں تیار کرکے انہوںنے سرکار کو بھیجی ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ یہ عمل جلد سے جلد تکمیل کو پہنچے ۔
مرکزی امدادضرورت
ایگزیکٹو انجینئر فلڈ کنٹرول پونچھ راجیش گپتا کاکہناہے کہ بفلیاز سے لیکر کلائی تک انہوںنے نقصان کا تخمینہ لگاکر 52کروڑ روپے کا پروجیکٹ تیار کیاتاہم حکومت کی طرف سے یہ رقم نہیں مل سکی کیونکہ یہ بہت بڑی رقم ہے اور اس کام کیلئے مرکز سے امداد کی منظور ی درکار ہے۔
۔29نہریں تباہ ہوئیں
سیلاب کی وجہ سے آبپاشی نہروں کی تباہی بھی ہوئی جن میں سے کچھ کی تعمیر ہوئی ہے جبکہ کچھ کی ہونا باقی ہے ۔ محکمہ آبپاشی کے اے ای ای محمد ریاض نے بتایا کہ سیلاب کے دوران سرنکوٹ میں29نہریں تباہ ہوئی تھیں جن میں سے 25پرمرمت کاکام کردیاگیاہے اور سنئی و موہڑہ بچھائی کے مقام پر نہروں کی مرمت کاکام باقی ہے جو جلد کردیاجائے گا۔
۔7کروڑواجب الادا
محکمہ تعمیرات عامہ کے اے ای ای سرنکوٹ اشفاق مغل کے مطابق سیلاب کے دوران ہوئی تباہی کی تعمیر نو کیلئے جو کام ہوااس میں سے 7کروڑ سے زائد رقم واجب الاداہے ۔ انہوں نے بتایاکہ بقایا کام کا کل تخمینہ ان کے پاس دستیاب نہیں اور یہ تفصیل پونچھ سے مل سکتی ہے ۔