لواحقین کے خدشات کو دور کیا جائے
مسعودی، بخاری اور حکیم کا حکومت سے مطالبہ
سرینگر//نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمان حسنین مسعودی ، اپنی پارٹی صدر سید محمد الطاف بخاری اور پی ڈی ایف صدر حکیم محمد یاسین نے ہوکرسرجھڑپ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائے۔ ایک بیان میں حسنین مسعودی نے کہاکہ پولیس کا بیان قابل یقین نہ ہونے کے ساتھ ساتھ ابہام سے پُر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس اس بات سے متفق ہے کہ تینوں نوجوانوں کے نام مشتبہ جنگجوئوں کی فہرست میں شامل نہیں لیکن ساتھ ہی اس بات کا دعویٰ کیا جارہا ہے کہ 2طالب علم اپر گراونڈ ورکر تھے جبکہ تیسرے نے ’ہوسکتا ہے کہ جنگجویت میں شمولیت اختیار کی ہو‘۔ پولیس کا یہ بیان کسی کو قائل کرنے کئے قابل نہیں اور ساتھ ہی اس بیان سے مارے گئے نوجوانوں کے لواحقین کے اس دعوے کو تقویت بخشتی ہے کہ تینوں نوجوان معصوم تھے اور ان کا ملی ٹنسی کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ معاملہ بالکل شوپیان میں ہوئے فرضی انکائونٹر کی نوعیت کا ہے جہاں مہلوکین کے لواحقین نے دعویٰ کیا تھا کہ مارے گئے نوجوان ملی ٹنٹ نہیں بلکہ روزگار کمانے کیلئے راجوری سے شوپیان آئے تھے۔ مسعودی نے اس بارے میں پرنسپل سکریٹری ہوم شالین کابرا سے مطالبہ کیا کہ معاملہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائے۔ مسعودی نے کہا کہ وہ یہ معاملہ لیفٹنٹ گورنر اور داخلہ مشیر کیساتھ اُٹھائیں گے۔ادھرالطاف بخاری نے مارے گئے 3نوجوانوں کے اہل خانہ کے بیانات سے پیدا بدگمانیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایک بیان میں الطاف بخاری نے مطالبہ کیاکہ جموں وکشمیر حکومت کو چاہئے کہ متعلقہ کنبہ جات کے بیانات کو خاطر میں لاکر مارے گئے نوجوانوں سے متعلق حقائق واضح کرے۔ انہوں نے کہاکہ ’’ ہوکر سرانکاؤنٹر سے متعلق فوج اور پولیس نے جو دعویٰ کیا ہے ،وہ مارے گئے تینوں نوجوانوں کے کنبہ جات کے بیانات کے متضاد ہے، لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ وہ وضاحت کرے اور اس متعلق بدگمانیوں کو دور کیاجائے۔اس دوران الطاف بخاری نے ہری سنگھ ہائی سٹریٹ سرائے پائین سرینگر میں نشچل جیولرس کے مالک ستپال نچشل کو نامعلوم اسلحہ برداروں کے ہاتھوں قتل کی مذمت کی۔انہوںنے مرتکبین کو گرفتار کرنے اور سخت سزا دینے کی مانگ کرتے ہوئے اس انسانیت سوز قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ مہذب معاشرے میں ایسی وارداتوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوںنے لواحقین سے تعزیت کااظہار کرتے ہوئے آنجہانی کی روح کی تسکین کیلئے دعا کی۔ دریں اثناء حکیم یاسین نے تینوں نوجوانوں کو مارے جانے کے واقعہ کی تحقیقات کرانے کی مانگ کی ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہاکہ لواحقین نے فوجی بیان کو مسترد کردیا ہے کہ تینوں نوجوان جنگجو تھے۔ حکیم نے کہاکہ اس بدقسمت واقعہ کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کی جائے اور حقائق کو سامنے لایا جائے۔ انہوںنے کہاکہ مبینہ طور پر فرضی انکاونٹر کے باربار واقعات رونما ہوناباعث تشویش ہے اور اس سے کشمیر میں بے یقینی کی صورتحال پیدا ہوتی ہے اور لوگ خاص کر نوجوان اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی ضرورت:حریت (ع)
سرینگر//حریت (ع) نے لاوے پورہ سرینگر میں فورسز کے ذریعہ تین نوجوانوں زبیر ،اعجاز اور اطہر کی ہلاکت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ادھر جمعیت ہمدانیہ نے بھی ان ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے لواحقین کو انصاف فراہم کرنے کی مانگ کی ہے۔ایک بیان میں حریت (ع) نے کہا ہے کہ پولیس کنٹرول روم سرینگر کے باہر اس قتل کے خلاف احتجاج کرنے والے نوجوانوں کے اہل خانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ تینوں معصوم نوجوان تھے جو حصول علم کی غرض سے اپنے گھروں سے نکل کرشہر سرینگر کا رْخ کیا تھا۔مہلوک اعجاز کے دادا نے میڈیا کو بتایا کہ اس نے صبح صبح اپنے پوتے کے ساتھ چائے پی تھی اور الزام عائد کیا کہ اعجاز کو سرینگر جاتے ہوئے کار سے گھسیٹ کرگولی مار کر ہلاک کیا گیا۔حریت (ع) نے واضح کیا کہ اس طرح کی لرزہ خیز ہلاکتیں دل کو دہلا دینے والی ہیں اور اس کا ایک افسوسناک پہلویہ بھی ہے کہ ان لڑکوں کی لاشیں بھی آخری رسومات کی ادائیگی کیلئے اہل خانہ کے حوالے نہیں کی گئیں۔ حریت(ع) نے یہ بات زور دیکر کہی کہ اس طرح کے مشکوک انکاونٹر میں زیادہ تر نوجوانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو یہاں ایک معمول بن چکا ہے جبکہ ان ہلاکتوں کے حوالے سے کوئی بھی باز پرس نہیں کی جاتی۔ بیان میں کہا گیا کہ جموںوکشمیر میں کئی دہائیوں سے جاری جدوجہد کے نتیجے میں ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔حریت (ع)نے اس طرح کے واقعات کی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی ضرورت واضح کرتے ہوئے کہا کہ اس عمل سے ہی ہلاک کئے جانے والے نوجوانوں کے اہل خانہ کا سچ جاننے کامطالبہ پورا کیا جاسکتا ہے اور صحیح حقائق سامنے آسکتے ہیں لیکن افسوس کشمیر میں اس طرح حق و انصاف کا مطالبہ کرنا محض ایک دیرینہ خواب کی مانند ہے۔بیان میں کہا گیا کہ افسوس یہاںجو بھی شخص انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کے خلاف احتجاج کے لئے آواز اٹھاتا ہے یا تنازعہ حل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تو پھر یا تو اسے خاموش رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے یا پھراْسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔چنانچہ آج بھی ہزاروں کشمیری نوجوان ، سیاستدان ،تاجر ،صحافی ، وکلاء،سول سوسائٹی کے ممبران اور بلا امتیاز کشمیری اس’’جرم‘‘کے الزام میں پورے ہندوستان کے مختلف جیلوں میں نظر بند اور مقید رکھے گئے ہیں۔حریت (ع)انسانی حقوق کی تنظیموں پر زور دیا کہ وہ اس طرح کی ناانصافیوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خاتمہ کیلئے آواز بلند کریں اور حکومت ہند سے مطالبہ کریں کہ وہ تمام کشمیری سیاسی قیدیوں اور نظربندوں کو غیر مشروط طور پر جیلوں اور گھروں سے رہا کرے۔ادھر جمعیت ہمدانیہ نے ہوکرسر میں مبینہ فرضی جھڑپ کے دوران 2کمسن طالب علموں سمیت 3افراد کو مارنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے واقعہ کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک بیان میں جمعیت نے کہا کہ شوپیان میں راجوری کے 3معصوم نوجوانوں کی فرضی جھڑپ میں ہوئی ہلاکت کے بعد ایک اور گھناوانا واردات سامنے آئی اور یہ انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ بیان میں کہاگیاکہ مبینہ فرضی جھڑپ میں ملوث اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دیکر مہلوکین کے لواحقین کو انصاف ملنا چاہئے۔ جمعیت نے مارے گئے نوجوانوں کے اہل خانہ خصوصاً والدین کیساتھ دلی تعزیت کا اظہار کیا اور دعا کی کہ اللہ پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔