قربان علی
معروف تجربہ کار صحافی نیرجا چودھری کا شمارہندوستان کی بہترین سیاسی رپورٹروں اور مبصرین میں سے ہوتا ہے۔ ایک ایوارڈ یافتہ صحافی ہونے کے علاوہ، وہ تقریباً پانچ دہائیوں سے ملک میں ہونے والی سیاسی پیش رفت کو بھی کور کر رہی ہیں۔ انہوں نے اپنی رپورٹنگ میں ایسے چشم کشا واقعات فراہم کیے ہیں کہ کس طرح آزاد ہندوستان میں کچھ اہم ترین سیاسی فیصلے جنہوں نے ہندوستانی سیاست کو متاثر کیا ،وزرائے اعظم نے لیے۔ حال ہی میں شائع ہوئی ان کی پہلی اور تازہ ترین کتاب، ’’ہاؤ پرائم منسٹرز ڈیسائیڈ‘‘ ان کی براہ راست اور تفتیشی صحافت کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔ جس میں انہوں نے ۱۹۷۵ء سے ۲۰۱۴ء تک چھ وزرائے اعظم، یعنی اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، وی پی سنگھ، پی وی نرسمہا راؤ، اٹل بہاری واجپائی، اور منموہن سنگھ کے دور کا بڑی باریک بینی اور معروضیت سے محاکمہ کیا ہے۔
ایک قابل اور بہترین مصنف ہونے کے ناطے انہوں نے اپنی اس کتاب میں تاریخی اہمیت کے حامل چھ فیصلوں کے آئینے میں ملک کے وزرائے اعظم کے کام کاج کی کہانی کو نہایت عمدگی سے بیان کیاہے۔ یہ چھ فیصلے، جو ان کی نظر میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں، وہ یہ ہیں: ۱۹۷۷ء میں اپنی ذلت آمیز شکست کے بعد اندرا گاندھی کا،۱۹۷۹ء میں جنتا پارٹی کو توڑنے اور ۱۹۸۰ء میں اقتدار میں واپس آنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنا ، عدالتی فیصلے کی غلطیاں جس کی وجہ سے راجیو گاندھی نے شاہ بانو کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا اور آر ایس ایس کے رہنماؤں کے ساتھ ان کی بات چیت، جس نے بالآخر بی جے پی کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار ، وی پی سنگھ کا اپنی حکومت کو بچانے کے لیے منڈل کمیشن کی رپورٹ کا نفاذ کرناجس نے عصری سیاست کا چہرہ بدل کر رکھ دیا، پی وی نرسمہا راؤ کا بڑا فیصلہ جس کے نتیجے میں بابری مسجد کا انہدام ہوا،تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے نے ،امن پسند اٹل بہاری واجپائی کو ایک جوہری شاہین میں تبدیل کر دیا جنہوں نے جوہری آلات کے ٹیسٹ کو ہری جھنڈی دکھائی۔ اور معتدل مزاج پروفیسر منموہن سنگھ، جوبڑی حد تک ملک کے کمزور ترین وزرائے اعظم میں سے ایک کے طور پر شمار کیے جاتے ہیں، جنہوں نے امریکہ کے ساتھ تاریخی جوہری معاہدہ کرنے کے لیے سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے اندر مفاد پرست گروہوں اور دشمنوں، دونوں کا مقابلہ کیا۔
مذکورہ کتاب کا پہلا باب جوکہ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی پر ہے ،جس کا عنوان نیرجا چودھری نے ، The Secular Prime Minister Who Undermined Secularism یعنی’ ’سیکولر وزیر اعظم جنہوں نے سیکولرازم کو کمزور کیا‘‘ دیا ہے۔ نیرجا اندرا گاندھی کے لئے رقمطراز ہیں کہ ’اندرا گاندھی پہلے ہندو تھیں اور آخر میں بھی ہندو۔‘ وہ مزید لکھتی ہیں کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے ایمرجنسی کے دوران گاندھی سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے بارے میں بات کی تھی۔ آر ایس ایس کے سربراہ بالا صاحب دیوراس نے انہیں کئی بار خط بھی لکھا تھا۔ آر ایس ایس کے کچھ لیڈر کپل موہن کے ذریعے سنجے گاندھی تک پہنچے تھے۔ نیر جا لکھتی ہیں’’ اب۱۹۷۷ء میں دیکھنا ہوگا کہ وہ کیا جواب دیتی ہیں۔لیکن ا نہیں اسے بہت احتیاط سے کھیلنا پڑے گا،‘‘ چودھری لکھتی ہیں۔ ’’جس طرح آر ایس ایس کی قیادت ان کے پاس مدد کے لیے پہنچ گئی تھی، اسی طرح انہوں نے بھی آر ایس ایس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا – لیکن انہوں نے بہت احتیاط سے تنظیم اور اپنے درمیان ایک فاصلہ رکھا۔ آر ایس ایس کے خلاف اپنی تمام تر مخالفت کی وجہ سے، وہ ایمرجنسی میں اس کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔‘‘
اندراگاندھی کو ایک بڑی غاصب اور ماہریکیاویلیئن سیاستداںکے طور پر شمار کیا گیا، جنہوں نے ۱۹۶۹ء میں پرانے سنڈیکیٹ سے لڑنے کے لیے، نہ صرف اپنی پارٹی میں موجوداپنے بائیں بازو کے سوشلسٹ دوستوں کو استعمال کیا بلکہ اپوزیشن جماعتوں اور آر ایس ایس کو بھی۔ بنگلہ دیش کی جنگ کے دوران آر ایس ایس نے ان کی بھرپور تعریف اور حمایت کی، جس کے نتیجے میں ۱۹۷۱ء میں پاکستان کی تقسیم ہوئی، اور ۱۹۸۰ء میں ان کی اقتدار میں واپسی پر آر ایس ایس نے ان کی مکمل حمایت کی۔ آر ایس ایس نے۱۹۸۳ء کے جموں و کشمیر ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں اور اس کے بعد ۱۹۸۴ء میں ان کے انتقال کے بعدراجیو گاندھی کی قیادت میں کانگریس پارٹی کی حمایت کی۔ اس الیکشن میں بی جے پی کا تقریباً صفایا ہو گیا تھا اور اسے لوک سبھا انتخاب میں صرف دو سیٹیں ملی تھیں۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے سب سے قد آور لیڈر اٹل بہاری واجپائی بھی گوالیار سے بری طرح الیکشن ہار گئے۔
نیرجا چودھری اپنی اس کتاب میں اس بارے میں بھی پردہ اٹھایا ہے کہ کس طرح اندرا گاندھی نے ۱۹۷۷ء۔۱۹۷۹ء کے دوران جنتا پارٹی کے اندر اندرونی لڑائی کا فائدہ اٹھایا، اور کس طرح انہوں نے اپنے غیر سیاسی رابطوں کا استعمال کیا جیسے شراب کی معروف کمپنی موہن میکنز بیوریجز (اولڈ مونک رم اور گولڈن ایگل بیئر بنانے والے) کے کپل موہن اور ان کے بھتیجے انیل بالی کو جنتا پارٹی کے باغی راج نارائن کو راغب کرنے کے لئے تاکہ جنتا پارٹی کو توڑا جائے اور کس طرح سنجے گاندھی نئی دہلی میں کپل موہن کے پوسا روڈ والے گھر میں راج نارائن سے ملتے تھے۔ ان کے مطابق، اندرا گاندھی کے قریبی ساتھی انیل بالی، جن کے بارے میں انہوں نے اپنی کتاب میں بڑے حوالے پیش کئے ہیں، ’’آر ایس ایس نے ۱۹۸۰ء میں اندرا گاندھی کو اقتدار میں آنے میں مدد کی تھی۔‘‘
بالی کا دعوی ہے،’’وہ جانتی تھی کہ آر ایس ایس نے ان کی حمایت کی ہے لیکن انہوں نے کبھی اس کا عوامی سطح پر اعتراف نہیں کیا۔ وہ نجی طور پر تسلیم کرتی تھیں کہ اگر آر ایس ایس کی حمایت نہ ہوتی تو وہ ۳۵۳ سیٹیں نہیں جیت سکتی تھیں، جو کہ ۱۹۷۱ء میں، ان کی اپنے عروج کے دنوںجیتی گئی سیٹوں سے ایک زیادہ تھی۔ ’’ بالی نے مزید کہا ،کہ آر ایس ایس کی قیادت پر’’مندر جانے میں اضافہ ضائع نہیں ہوا‘‘۔
نیرجا چودھری ، بالی کے حوالے سے لکھتی ہیں:’’آر ایس ایس کے سربراہ بالاصاحب دیوراس نے ایک بار گفتگو کے دوران اندراگاندھی کے لئے،’اندرا گاندھی بہت بڑی ہندو ہے‘ کا تبصرہ کیا تھا۔‘‘ ’’بالا صاحب دیوراس اور ان کے بھائی نے اندرا گاندھی کو ہندوؤں کی ممکنہ لیڈر کے طور پردیکھا،‘‘
جلد ہی لانچ ہونے والی یہ کتاب، جو الف (Aleph)بک کمپنی نے شائع کی ہے، یہ بھی بتاتی ہے کہ ۱۹۷۱ء میں آر ایس ایس نے بنگلہ دیش کو آزاد کرانے اور پاکستان کو کمزور کرنے پر اندرا گاندھی کی خوب تعریف کی تھی۔ لیکن کتاب میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ ۱۹۸۰ء میں جب بی جے پی رہنما اٹل بہاری واجپائی اپنی شبیہ کو سیکولر بنانے کی کوشش کر رہے تھے ،اس وقت اندرا گاندھی کانگریس کے چہرے کو ہندو بنانے کی کوشش کر رہی تھیں۔
’’اس وقت کے آر ایس ایس کے سربراہ مادھو سداشیو گولوالکر، جو گروجی کے نام سے مشہور ہیں، نے انہیں لکھا، ’اس کامیابی کا سب سے بڑا کریڈٹ آپ کو جاتا ہے۔‘۱۹۷۴ء میں، انہوں نے نیوکلیئر ڈیوائس کے تجربہ کرنے پر دوبارہ آر ایس ایس کی جانب سے تعریفی اور تحسینی کلمات حاصل کئے ۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ،آر ایس ایس نے ہمیشہ فوجی طور پر مضبوط ہندوستان کی وکالت کی تھی۔‘‘
نیرجا چودھری مزید واضح کرتے ہوئے لکھتی ہیں، ۱۹۸۰ء میں اقتدار میں واپس آنے کے بعد، کانگریس کے بارے میں مسلمانوں کی ناخوشی کو محسوس کرتے ہوئے، وہ ’’اپنی سیاست کو ہندو نواز بنانا‘‘ چاہتی تھیں، وہ اس بات سے آگاہ تھیں کہ آر ایس ایس کی جانب سے خاموشی اختیار کرنا یا اس کی طرف سے غیر جانبدارانہ موقف بھی، ان کے لئے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنے بیٹے راجیو گاندھی سے آر ایس ایس کے ساتھ روابط اور تعلقات استوار کرنے کو کہا۔نیرجا نے اپنی کتاب میں لکھاہے، ’’اگرچہ آر ایس ایس نے اندرا سے رابطہ کیا تھا، لیکن انہوںنے ایمرجنسی کے دوران یا اس کے فوراً بعد اس کی قیادت سے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن ۱۹۸۲ء میں، اپنی مدت کے نصف حصے میں، انہوں نے راجیو سے آر ایس ایس کے سربراہ بالاصاحب دیوراس کے بھائی بھاؤ راؤ دیورس سے ملنے کو کہااور ان کے ساتھ بات چیت شروع کی۔ ان کی یہ ملاقاتیں کپل موہن نے طے کی تھیں۔ بھاؤ راؤ دیورس اس وقت آر ایس ایس کے سیاسی ونگ کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔‘‘
اس کتاب کے مطابق’’راجیو نے بھاؤ راؤ سے ۱۹۸۲ء۔۱۹۸۴ء کے درمیان تین بار اس وقت ملاقات کی، جب اندرا گاندھی ابھی وزیر اعظم تھیں، اور ایک بار ۱۹۹۱ء کے اوائل میں وہ اس وقت ملے، جب وہ اقتدار سے باہر تھے۔ پہلی ملاقات ستمبر ۱۹۸۲ء میں کپل موہن کی ۴۶، پوسا روڈ رہائش گاہ پر ہوئی تھی۔ دوسری ملاقات بھی پوسا روڈ پر ہوئی، تیسری ملاقات فرینڈز کالونی میں انیل بالی کی رہائش گاہ پر ہوئی۔ چوتھی میٹنگ دس جن پتھ پر ہوئی تھی،‘‘
’’وزیر اعظم بننے کے بعد راجیو نے بھاؤ راؤ سے ملاقات نہیں کی۔ لیکن وہ ایک دوسرے کے رابطے میں رہے۔وزیراعظم کی مدت کے نصف میں، آر ایس ایس نے راجیو سے درخواست کی کہ وہ رامانند ساگر کی طرف سے دوردرشن پر رامائن سیریل کے ٹیلی کاسٹ کی سہولت فراہم کریں- اس میں رکاوٹیں کھڑی ہو گئی تھیں۔ کانگریس لیڈر ایچ کے ایل بھگت، جوبعد میں وزیر اطلاعات و نشریات کے عہدے پر فائز ہوئے، جب راجیو نے ان سے آر ایس ایس کی درخواست کا ذکر کیا تو وہ گھبرا گئے۔ اس نے راجیو کو خبردار کیا کہ یہ ایک پنڈورا بکس کھول دے گا — اور بی جے پی-وی ایچ پی-آر ایس ایس کی زیر قیادت رام جنم بھومی تحریک کے حق میں ماحول پیدا کرے گی، راجیو نے بھگت کے خدشات پر توجہ نہیں دی۔
جب کہ کتاب میں ایسے کئی واقعات کا انکشاف کیا گیا ہے، جو اب تک پردۂ اخفاء میں تھے، جس کی وجہ سے راجیو گاندھی حکومت نے شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ کے حکم کو کالعدم کرنے کے لیے بل لانے کا فیصلہ کیا، جس سے ایک پوری کہانی سامنے آ جاتی ہے۔
ڈی پی ترپاٹھی، این سی پی کے آنجہانی لیڈر جو اس وقت راجیو گاندھی کے قریبی لوگوں میں شمار ہوتے تھے، کے مطابق، سونیا نے راجیو سے پوچھا’’راجیو، اگر آپ مجھے اس مسلم خواتین بل کے بارے میں قائل نہیں کر سکتے تو آپ ملک کو کیسے قائل کریں گے؟‘‘ ۔ انہوں(سونیا) نے ان (راجیو)سے کہا ’’آپ کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر قائم رہنا چاہیے‘‘۔ کتاب میں ترپاٹھی کے حوالے سے یہ بات لکھی گئی، جن کے مطابق ’’یہ بات سونیا نے میری موجودگی میں کہی۔‘‘
درحقیقت، پارلیمنٹ کی طرف سے آئینی ترمیمی بل کے ذریعے سپریم کورٹ کے شاہ بانو فیصلے کو کالعدم کرنا ایودھیا میں رام مندر کے لیے ایک معاوضہ یعنی تلافی تھا۔ یہ راجیو گاندھی کی ہی حکومت تھی جس نے فیض آباد کی عدالت کے ذریعے بابری مسجد کے تالے کھلوائے اور یکم فروری ۱۹۸۶ء کو اسے قومی ٹیلی ویژن دوردرشن پر نشر کیا۔ ۱۹۸۹ء میں بھی یہ راجیو گاندھی کی حکومت تھی جس نے ایودھیا میں اپنے وزیر داخلہ بوٹا سنگھ اور پھر یوپی کے وزیر اعلیٰ این ڈی تیواری کے ذریعے وی ایچ پی کے ساتھ متنازعہ مقام پر شلا نیاس کرنے کا معاہدہ کیا۔
اندرا اور راجیو کے بعد نیرجا کی اس کتاب کا تیسرا باب وی پی سنگھ کے بارے میں ہے، جو ۱۹۸۹ء کے عام انتخابات میں کانگریس پارٹی کی شکست کے بعد وزیر اعظم بنے تھے۔ اگرچہ ی اس باب کا آغاز اس بات سے ہوتا ہے کہ کس طرح وی پی سنگھ یکم دسمبر ۱۹۸۹ء کو پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں جنتا دل کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ارون نہرو کی چالاکی، فریبانہ عمل اور سفارت کاری کے ذریعہ وزیر اعظم منتخب ہوئے، لیکن یہ وی پی سنگھ کی سیاست کے بارے میں بھی بہت سی اہم معلومات فراہم کراتا ہے کہ کس طرح وی پی سنگھ نے کانگریس پارٹی سے باہر نکلنے کے بعد جن مورچا ، جنتا دل، نیشنل فرنٹ کی تشکیل کی اور پھر دائیں بازو کی بی جے پی اور بائیں بازو کی کمیونسٹ پارٹیوں کی حمایت سے اپنی مختصر مدت کی حکومت تشکیل دی۔
اپنی حکومت کے قیام کے آٹھ ماہ بعد، وی پی سنگھ نے نائب وزیر اعظم دیوی لال کو برطرف کر دیا، جس سے ان کی حکومت کے خاتمے کا آغاز ہوا۔ دیوی لال کی سیاست کا مقابلہ کرنے کے لیے، انھوں نے اچانک منڈل کمیشن کی رپورٹ کو نافذ کرنے کا اعلان کیا، جس میں او بی سی اور پسماندہ ذاتوں کے لیے سرکاری ملازمتوں میں ۲۷فیصد تحفظات کی سفارش کی گئی تھی۔ اصل میں یہ رپورٹ دسمبر ۱۹۸۰ء میں صدر جمہوریہ ہند کو پیش کی گئی تھی ، لیکن ۱۹۸۰ء کی دہائی میں کانگریس کی حکومتوں کے دوران اس کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا تھا، جس کے بعد وی پی سنگھ نے اچانک اس کے نفاذ کا اعلان کیا۔ یہ پنڈورا باکس، ہندوستانی سیاست میں ایک نئے باب کا آغاز کرتا ہے ۔ مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر پولرائزیشن، اونچی ذات بمقابلہ پسماندہ ذات، منڈل بمقابلہ کمنڈل اور مندر بمقابلہ مسجدنے ملک میں بی جے پی کے لیے ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر ابھرنے کی راہ ہموار کی۔
کتاب کا چوتھا باب پی وی نرسمہا راؤ اور ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام کو ان کی سرپرستی میں کس طرح انجام دیا گیا ، کے بارے میں ہے۔ اس کتاب میں۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کو بابری مسجد کے انہدام کے واقعات کے سلسلے کو واضح تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس میں انہدام کے چند دنوں بعد صحافی نکھل چکرورتی کی راؤ سے ملاقات کا بھی ذکر ہے۔ رائو اور چکرورتی دونوں کی دوستی تھی۔
’’میں نے سنا ہے کہ آپ ۶؍ دسمبر کو بارہ بجے کے بعد پوجا کر رہے تھے،‘‘ چکرورتی نے راؤ کو چھیڑا۔ راؤ نے چکرورتی پر جوابی حملہ کیا، ’’دادا، آپ کو لگتا ہے کہ میں سیاست نہیں جانتا۔ میں راج نیتی (سیاست) میں پیدا ہوا اور میں آج تک صرف سیاست کر رہا ہوں۔ جو ہوا وہ ٹھیک ہوا۔ میں نے اس لئے ہونے دیاکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی مندر کی راجنیتی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔‘‘
نرسمہا راؤ کے اس وقت کے میڈیا ایڈوائزر پی وی آر کے پرساد کا حوالہ دیتے ہوئے، کتاب میں درج ہے،’’ پی ایم نے انہیں ایک ٹرسٹ بنانے کی ہدایت دی جو ایک مندر (رام) بنا سکے جہاں کبھی مسجد کھڑی تھی۔‘‘
انہدام کے بعد اتوار کو (۱۳؍دسمبر ۱۹۹۲ء)، پرساد راؤ سے ملنے گئے تھے۔ انہوں نے وزیر اعظم کو تنہا اور فکرمند پایا۔ ’’ہم بی جے پی سے لڑ سکتے ہیں، لیکن بھگوان رام سے کیسے لڑ سکتے ہیں؟‘‘، انہوں نے پرساد سے فکر مندانہ لہجہ میںپوچھا۔ ’’جب ہم کہتے ہیں کہ کانگریس ایک سیکولر پارٹی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ملحد ہیں،‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’ان (بی جے پی) کا ایودھیا میں مندر کی تعمیر کے بہانے بھگوان رام پر اجارہ داری کرکے لوگوں کو دھوکہ دینا کہاں تک جائز ہے؟‘‘
کتاب کا پانچواں باب پی ایم اٹل بہاری واجپائی کے بارے میں ہے، اور یہ کہ کس طرح ایک زمانہ میں امن پسند کہے جانے والے باجپئی نیوکلیائی شاہین میں تبدیل ہو گئے ،جنہوں نے مئی ۱۹۹۸ء میں نیوکلیائی تجربات کو ہری جھنڈی دکھائی۔ کتاب کے مطابق مئی ۱۹۹۸ء میں ہندوستان کا پوکھرن میں کامیاب نیوکلیائی تجربہ، اٹل بہاری واجپائی کی وزارت عظمیٰ کا عظمت کا نشان ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ۱۹۷۹ء میں جب وہ مرارجی ڈیسائی کابینہ میں وزیر خارجہ کے عہدے پر فائزتھے، تو اس وقت واجپائی نے نیوکلیائی ٹیسٹ کی سخت مخالفت کی تھی۔
کتاب کا چھٹا اور آخری باب ۲۰۰۴ء میں ڈاکٹر منموہن سنگھ کو وزیر اعظم بنائے جانے کے بارے میں ہے اور یہ کہ ملک کے کمزور ترین وزرائے اعظم میںسمجھے جانے والے ایک معتدل پروفیسر نے ،کس طرح سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے اندر مفاد پرست گروہوں اور دشمنوں کی نفی کی تاکہ امریکہ کے ساتھ تاریخی جوہری معاہدے پر مہر لگائی جاسکے۔ یاد رہے کہ منموہن سنگھ بائیں بازو کی جماعتوں کی حمایت سے وزیر اعظم بنے تھے لیکن انہوں نے امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے کے لیے انہیں دھوکہ دیا۔
کتاب میں ۱۷؍ مئی۲۰۰۴ء کی دوپہر کو دس جن پتھ میں ہونے والی ملاقات کے بارے میں تفصیلات بتائی گئی ہیں، جس نے منموہن سنگھ کے وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار کی۔
’’کے نٹور سنگھ کے مطابق، جب وہ وہاںپہنچے تو سونیا، پرینکا گاندھی اور منموہن سنگھ کمرے میں موجود تھے۔ وہ (سونیا) وہیں صوفے پر بیٹھی تھیں۔۔۔ منموہن سنگھ اور پرینکا (بھی وہاں موجود تھے)۔۔۔ سونیا گاندھی کافی پریشان دکھ رہیں تھیں۔۔۔ تب راہل اندر آئے اور ہم سب کے سامنے بولے، ’’میں آپ کو وزیر اعظم نہیں بننے دوں گا، میرے والد کو قتل کیا گیا، میری دادی کو قتل کیا گیا، چھ ماہ میں آپ کو مار ڈالا جائے گا‘‘، راہل نے دھمکی دی کہ اگر سونیا نے ان کی بات نہ مانی تو وہ انتہائی قدم اٹھائیں گے۔ ’یہ کوئی معمولی دھمکی نہیں تھی،‘ نٹور سنگھ نے یاد کیا،’راہل ایک مضبوط ارادے والے شخص ہیں، انہوں نے سونیا کو فیصلہ کرنے کے لیے ۲۴گھنٹے کا وقت دیا تھا۔‘
سونیا کے آنکھو ں میں آنسو تھے، جس کے بعد راہل نے کہا کہ وہ ’’اپنی ماں کو وزیر اعظم بننے سے روکنے کے لیے کوئی بھی ممکنہ قدم اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔‘‘ اور باقی تاریخ تھی۔
مختلف انٹرویوز میں یہ پوچھے جانے پر کہ انہوں نے اپنی اس کتاب میںنریندر مودی کے بارے میں کیوں ذکر نہیں کیا، اور یہ کیوں نہیں بتایا کہ وہ کیسے وزیر اعظم بنے اور ان کے اہم فیصلوں نے ہندوستانی عوام اور سیاست کو کس طرح متاثر کیا، نیرجا چودھری کا کہنا ہے کہ’’ان کی مدت وزیر اعظم ابھی جاری ہے کیونکہ وہ تیسرے دور کے لئے بھی کام کر رہے ہیں۔‘‘
اپنی کتاب کے ا ختتام میں، انہوں نے وضاحت کی کہ ’’میں نے انصاف اور درستگی کے مفاد میں یہ فیصلہ لیا کہ موجودہ وزیر اعظم کو اس کتاب میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ ایک تو ان کی مدت وزیر اعظم ابھی جاری ہے اور دوسرے، دیگر وزرائے اعظم کے برعکس، مودی کے ساتھ جو چیز نہیں ہے وہ سوچ و فہم کی طاقت ہے، جو صحافی کا واحد مینار ہوتا ہے جو وزیر اعظم کے دور اور پی ایم او کے اندرونی کام کو روشن کرتا ہے۔‘‘لیکن انہوںنے اعتراف کیا کہ ’’یہ کتاب ہندوستان کے چودھویںاور، اب تک کے سب سے طاقتور وزیر اعظم ، جو اپنے پیشروؤں کے تناظر میں دیکھے جاتے ہیں، کے بارے میں ایک لفظ لکھے بغیر نامکمل ہو گی ۔‘‘
نیرجا چودھری کی یہ کتاب یہ واضح کرتی ہے کہ کس طرح اکثریتی حکمرانی کے ساتھ ساتھ مخلوط حکومت میں بھی وزرائے اعظم کی طاقت اور اختیار کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ مصنف کے مطابق، اس کی یہ کتاب پاور یعنی طاقت اور اختیارکے بارے میں ہے، اور یہ کہ اعلیٰ ترین عوامی عہدہ رکھنے والوں نے اسے کس طرح اور کس انداز میں استعمال کیا۔
’How Prime Ministers Decide‘ جدید ہندوستانی سیاست کے بارے میں ایک بہترین کتاب ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح وزیر اعظم نے ملک پر حکومت کی اور کس طرح ان کے فیصلوں نے ملک کی تاریخ کا رخ بدل دیا۔
(نوٹ۔ مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیا جاناچاہئے۔)