جموں وکشمیر کے معاملات مرکزی سرکار اور پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں آگئے
سرینگر //ریاست جموں وکشمیر میں صدر راج کا نفاذ عمل میںلایا گیا ہے اور اس سلسلے میں صدر جمہوریہ ہند کی جانب سے حکم نامہ صادر کردیا گیا ہے، اسکا اطلاق بدھ کی رات12بجے سے ہوگا۔ریاست میں گورنر راج کی 6ماہ کی مدت 19 دسمبر کو ختم ہورہی تھی۔1947 کے بعدیہ تیسرا موقعہ ہے جب ریاست میں صدر راج نافذ کیا گیا ہے۔صدر راج کے نفاذ کیساتھ ہی ریاست براہ راست مرکزی سرکار کی زیر نگرانی آگئی ہے،اور پارلیمنٹ کے تابع ہوگئی ہے۔ریاست میںپی ڈی پی ، بی جے پی مخلوط حکومت کے خاتمے کے وقت 19جون 2018کوگورنر راج کانفاذ عمل میں لایا گیا تھا۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ ریاست کے گورنر ستہ پال ملک نے چند روز قبل مرکز کو یہ سفارش کی تھی کہ یہاں صدر راج نافذ کیا گیا۔چنانچہ ریاستی گورنر کی تجویز پر مرکزی کابینہ نے اسے اصولی طور پر منظوری دی اور صدر جمہوریہ سے سفارش کی گئی کہ ریاست جموں و کشمیر میں صدر راج کے نفاذ کی منظوری دی جائے۔بدھ کی شام مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے صدر جمہوریہ ہندرام ناتھ کووند کے حکم نامہ کو جاری کیا گیا جس میں صدر جمہوریہ نے گورنر اور مرکزی سرکار کی سفارش کو منظوری دیتے ہوئے آئین کی شق356کے تحت ریاست میں صدر راج کے نفاذ کا حکم نامہ جاری کردیا۔آئین ہندکے تحت جموں وکشمیرکوانڈین یونین میں شامل دوسری ریاستوں کے مقابلے میں جوخصوصی اورمنفردپوزیشن حاصل ہے ،اْس آئینی پوزیشن کا تقاضا یہ ہے کہ یہاں صرف 6ماہ تک ہی گورنر راج نا فذ کیا جاسکتا ہے۔آئین کے مطابق اسکے بعد صدر راج نافذ کیا جاسکتا ہے اور اسکی مدت 6سال تک ہے،جس میں ہر 6ماہ بعد توسیع کی گنجائش ہے۔لیکن6سال کے بعد بہر صورت انتخابات کرانا لازمی ہیں۔ اس طرح کی صورتحال 1990میں پیش آئی تھی، جہاں پہلے گورنر راج اور اس کے بعد 6سال تک صدر راج نافذ رہا اور بالآخر 1996میں انتخابات کرانا پڑے۔اب ریاست میں صدر راج کا نٖاز تب تک رہے گا جب تک یہاں اسمبلی انتخابات نہیں کرائے جاتے۔1947کے بعدریاست میں پہلی بار6مارچ1986ء کو 246دنوں کے لئے ریاست میں پہلے6ماہ کیلئے گورنرراج اورپھر صدر راج نافذ رہا۔اُس وقت غلام محمد شاہ کی سرکار سے کانگریس پارٹی نے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔تب ریاست کے گورنر بی کے نہرو تھے۔19جنوری1990ء کو ریاست میں طویل6برس264دنوں کے لئے پہلے گورنر راج اورپھر صدر راج لاگو رہا۔یہ صورتحال تب پیش آئی جب اُس وقت کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے گورنر جگموہن کی دوسری بار تعیناتی کیخلاف استعفیٰ دیا تھا۔ اسکے ساتھ ہی یہاں ملی ٹینسی شروع ہوئی اور6سال تک انتخابات ممکن نہیں ہوسکے تھے۔ریاست میں11جولائی2008 کو 178دنوں تک گورنر راج نافذ رہا جب یہاں امرناتھ ایجی ٹیشن شروع ہوئی اور پی ڈی پی نے غلام نبی آزاد کی سرکار سے حمایت واپس لی تھی۔اگر تب مزید دو دن تک نئی حکومت کی تشکیل نہ پائی جاتی تو یہاں صدر راج نافذ ہوسکتا تھا۔