بے شک غربت کسی بھی فرد کے لئے آزمائش ہے ۔ غربت دراصل زندگی گزارنے کے وسائل سے محروم ہو جانے کا نام ہے ۔ جب کوئی فرد روزگار سے محروم ہو جائے یا اس قدر بیمار یا معذور ہو جائے کہ اپنے لئے یا اپنے بال بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی نہ کما سکے اوراُسے سرکاری یا عوامی سطح پرکوئی امداد نہ مل سکےتو وہ فرد مفلس و مستحق کہلاتا ہے، اُس پر غربت طاری ہو جاتی ہے۔ امریکہ ، یورپ ، جاپان ، ساؤتھ ایسٹ ایشیا کے ترقی یافتہ ممالک چین ، عرب ممالک غربت پر قابو پا کرآج اشراف اور فضول خرچیوں کے راستے پر چل رہے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ یہاں پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے ۔ چند ایسےافریقی ممالک بھی ہیں، جہاں معدنی دولت ہونے کے باوجود حکمرانوں کی نااہلی اور بد عنوانی کی وجہ سے عوام کی بڑی تعداد نہ صرف مفلسی کا شکار ہیں بلکہ غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں ۔ چین جو آج دنیا کے سپر پاور کے صف اول کے ممالک بن کر کھڑا ہے، وہاں کی عوام نے اپنی سخت محنت اور حکومت کے حسنِ انتظام اور کفایت شعاری کی وجہ سے غربت پر قابو پا چکے ہیں ۔ اب تین ایسی کثیر آبادی والے ممالک ہندوستان ، پاکستان اور بنگلادیش جہاں دو ارب سے زیادہ لوگوں کی آبادی ہے،میں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے ۔ افغانستان جو گزشتہ پچاس برسوں سے جنگی صورتحال سے دو چار تھا، اب اس سے نجات پانے کے بعد تیزی سے اس مسئلے پر قابو پانے کی جد وجہد کر رہا ہے جہاں حکومتی اہلکاروں کی سادگی ، کفایت شعاری اور کرپشن سے پاک حکمرانی اصل سبب ہے ۔جس کےنتیجے میں لوگوں کی آمدنیوں میں بہتری آرہی ہے اور وہ غربت کی سطح سے اوپر اُٹھ رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ جو لوگ محنت کشی، سادگی ، قناعت پسندی اور صبر و شکر والی زندگی گذارتے ہیں،اُن کے حالات بدل جاتے ہیں۔اس کے مقابلے میں جب ہم اپنے کشمیری معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو سب کچھ بالکل اُلٹ دکھائی دیتا ہے۔اگرچہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ کشمیری معاشرے کےبیشتر لوگوں کی ذرائع آمدنی میںبڑھوتری ہوئی ہےلیکن سادگی ،قناعت پسندی اور شُکر والی زندگی گذارنے سے وہ ابھی تک کوسوں دور ہے۔چنانچہ ریڈیو ،ٹیلی ویژن اور موبائیل فونز کے آنے کے بعد معاشرے لے ہر فرد کو پَر لگ گئے ہیں ۔ زندگی کے رنگ ڈھنگ سب کچھ بدلگ گئے ہیں ۔ اب اسکول جانے والے ہر بچے کی پیٹھ پر لدے بیگ میںپر اتنی کتابیں، کاپیاں اور درجنوں رنگ کی پنسلیں ہوتی ہے کہ اسکول جانے اور آنے کے بعد بچوں کی حالت پتلی ہو جاتی ہے ۔پہلے توٹیوشن کا تصور ہی نہیں تھا لیکن اب تو ہزاروں روپے فیس دے کر بچے ٹیوشن نہ پڑھیں تو امتحان پاس ہونا مشکل بن گیا ہے اور غریب کہلانے والے بچوں کا بھی جیب خرچہ بیس سے تیس روپے تک ہوتا ہے ۔ گھر کے ہر فرد کے پاس اسمارٹ فون، شادی کے تقریبات میں انواع اقسام کے کھانے ،زرق برق لباس ، ویڈیوز اور فضول خرچیاں شہر و دیہات میں عام ہے ۔علاوہ ازیںہوٹل بازی ، فاسٹ فوڈ کھانے اور پِکنک پر جانا بھی معمول بن چکا ہے اور پھر بھی غربت کا رونا ہے ۔سوشل میڈیا کی وباء کے سایے میں بھی آج گداگری ایک پیشہ بن چکی ہے ۔ بھکاریوں اورگلی سڑکوں پر جھاڑو دینے والوںکے پاس بھی اسمارٹ فون ہے ۔ یہ تو عمومی صورت حال ہے۔ اب اگرواقعی کہیں غربت ہے،تو اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے حالات کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اسی طرح کی زندگی گزارنے کے عادی ہو چکے ہیں ۔ یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ یہاں کے جو فلاحی ادارے یاصاحب ِ ثروت لوگ ، جن مستحق غریب لوگوں کی امدا د کررہے ہیں ،اُن میں سے زیادہ تر لوگ اپنی حالت بدلنے کے بجائےپیشہ ور گداگروں کا روپ اختیار کرچکے ہیں، یہ لوگ سرکاری امدادی اسکیموں کے مستفید ہوکر بھی اپنی حالت بدلنے پر آمادہ نہیںہوتے ۔ایک سروے کے مطابق ایک بھکاری روزانہ ایک ہزار سے ڈیڑھ ہزار روپے تک کی بھیک حاصل کرتا ہے اور اس کے علاوہ جنس بھی۔جو کہ ایک گریجویٹ ملازم کی تنخواہ سے کہیں زیادہ ہے۔ صاحب ِ ثروت لوگوں ،فلاحی تنظیموں اور سرکاری امدادی اداروں کے لئے لازم ہے کہ وہ ان باتوں کا خیال رکھیں،جبکہ اُن لوگوں کی امداد کرنا اُن کی اولین ذمہ داری ہے جو حقیقی معنوں میں مفلس و مستحق ہوںاورجن کا واقعی اورکوئی ذریعہ معاش نہ ہو،ورنہ یہاں غربت کے نام پرگداگری کا رُجحان دن بہ دن بڑھتا چلا جائے گااور بھکاریوں کی فوج دَر فوج پیدا ہوگی،جوکہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔