راجوری//بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری میں زیر تعلیم طلباء نے یونیورسٹی حکام پر الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ یونیورسٹی حکام کی جانب سے ہوسٹل فیس میں اضافہ کر دیا گیا ہے تاہم یونیورسٹی انتظامیہ نے کسی بھی غیر ضروری الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ معاملات ٹھیک چل رہے ہیں اور کوئی بھی ادارے کے کام کاج کا جائزہ لینے کیلئے کسی بھی وقت کیمپس کا دورہ کر سکتا ہے۔نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش کے ساتھ کچھ طلباء کی طرف سے فراہم کردہ جانکاری میں انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ فیس میں حالیہ کمی کے بعد خاص طور پر طالبات کے لئے یونیورسٹی نے مختلف شعبوں میں اندراج میں نمایاں بہتری دیکھی ہے لیکن اب یونیورسٹی داخلہ لینے والے طلباء کو ہوسٹل کی بھاری رقم ادا کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ یونیورسٹی ایک ہی مرتبہ 54ہزار روپے بطور فیس وصول کررہی ہے جبکہ اس کو قسطوں میں وصول کیا جانا تھا ۔ان طلباء نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ یونیورسٹی سالانہ 10ہزار روپے کرایہ اور 10ہزار روپے متفرق چارجز(miscellaneous charger) وصول کررہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی حکام کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین نوٹیفکیشن سے اس کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔طالب علموں نے مزید کہا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ یونیورسٹی کے تمام ہاسٹلز سرکاری (سرکاری) پیسے سے بنائے گئے ہیں، یونیورسٹی میں یہ رواج کافی عرصے سے جاری ہے۔انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ ’’ایسا لگتا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے اس پالیسی کو جاری رکھنے کی دانستہ کوشش کی جارہی ہے کیونکہ یونیورسٹی کے چند ملازمین یونیورسٹی کیمپس کے باہر طلباء کو نجی رہائش کرائے پر دینے میں ملوث ہیں اور یونیورسٹی کے بہت سے ملازمین مستقبل میں ایسا کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ موجودہ وائس چانسلر نے یونیورسٹی میں تعمیراتی کام پر روک لگا کر شاید نادانستہ طور پر اس عمل کی حوصلہ افزائی کی ہے۔انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ جبکہ بھی طلباء ہو سٹل فیس میں کسی بھی نرمی کیلئے یونیورسٹی حکام سے رجوع کرتے ہیں تو ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور بعض اوقات ہوسٹل خالی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔بچوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ کووڈ کی موجودہ صورتحال میں طلباء کو بائیو ببلز میں رکھنے کے بجائے یونیورسٹی حکام طلباء کو ہوسٹل سے باہر کرائے کی رہائشی میں رہنے پر مجبور ہونے کیلئے کوششیں کررہے ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی میں اس وقت 9الگ الگ ہوسٹل موجود ہیں تاہم ان کیلئے میس (mess)کا ٹھیکہ ہمیشہ ایک ہی ادارے کو دیا جاتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہوسٹل کی فیس جس میں کمرے کا کرایہ، میس فیس، مینٹیننس فیس، سیکورٹی فیس شامل ہیں، ہمیشہ طلباء سے ایک ہی بار میں وصول کی جاتی ہے وہ بھی پیشگی لیکن میس کے ٹھیکیدار کو ماہانہ بنیادوں پر ادائیگی کی جاتی ہے جبکہ یونیورسٹی حکام کے مذکورہ قدم کی وجہ سے طلباء اور ان کے والدین پر مالی بوجھ پڑتا ہے ۔انہوں نے کہاکہ ہوسٹلوں میں صفائی ستھرائی کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہے ۔طلباء نے یونیورسٹی حکام پر الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ ’آڈٹ‘سے بچنے کیلئے کبھی بھی ہوسٹلز کیلئے علیحدہ سے اکائونٹ نہیں بنایا گیا ہے ۔یونیورسٹی کا کوئی بھی ملازم جو یونیورسٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والی ایسی پالیسیوں کو چیلنج کرتا ہے اسے فیصلہ ساز اداروں سے باہر رکھا جاتا ہے اور صرف ان لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے جن کے مالی مفادات ہوتے ہیں۔یونیورسٹی انتظامیہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تمام الزامات مکمل طور پر بے بنیاد اور حقائق سے مبرا ہیں اور ادارے کے امیج کو نقصان پہنچانے کیلئے کچھ حقائق پر مبنی موقف کی غلط تشریح کی گئی ہے۔بی جی ایس بی یونیورسٹی کے ڈین اکیڈمک افیئرز، پروفیسر اقبال پرویز نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبہ کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے بہت سے اقدامات اٹھائے ہیں جن میں خواتین کو بااختیار بنانے کی کوششوں کے علاوہ کچھ زمروں کی فیس میں کمی اور کچھ خصوصی زمروں کیلئے آدھی فیس بھی شامل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو فیس میں رعایت بھی دی جاتی ہے جبکہ ہوسٹل فیس کے سلسلہ میں موصوف نے بتایا کہ 54ہزار روپے وصول کئے جاتے ہیں جنہیں حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جس میں ہوسٹل فیس کے طور پر ایک ہزار روپے ماہانہ اور کھانے کیلئے ماہانہ چار ہزار روپے شامل ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ جتنے دنوں تک طالب علم کھانا چھوڑتا ہے، اس کی فیس اس شرط پر واپس کردی جاتی ہے کہ وہ کھانے کی میز پر اپنی غیر موجودگی کے بارے میں پیشگی نوٹ پر مطلع کرے۔ایک ہی فرم کو میس کا ٹھیکہ دینے کے الزام پر پروفیسر اقبال پرویز نے کہا کہ ٹینڈرنگ کے عمل میں کچھ مسئلہ ہے کیونکہ حال ہی میں ٹینڈر فلش ہوا تھا اور سب سے کم بولی دینے والے کو الاٹ کیا جانا تھا لیکن وہ آخری وقت میں پیچھے ہٹ گئے جس کی وجہ سے یونیورسٹی انتظامیہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوااور عارضی بنیادوں پرسسٹم چلانے کیلئے کہا گیا ہے جبکہ ٹینڈرنگ کی کارروائی مکمل طور پر شفاف ہے۔ہوسٹل و دیگر اکائونٹ کے آڈٹسے متعلق الزامات پر جس میں طلباء سے فیس وصول کی جاتی ہے، ڈین اکیڈمک افیئرزنے کہا کہ یونیورسٹی کے دیگر اکاؤنٹس کی طرح یہ اکاؤنٹ بھی آڈٹ کے تابع ہیں۔انہوں نے بتایاکہ یونیورسٹی کے ایک ایک اکاؤنٹ کا آڈٹ کیا جاتا ہے اور ہم یونیورسٹی سے وابستہ ہر ایک اکاؤنٹ کا آڈٹ کرتے ہیں۔‘یونیورسٹی سے باہر رہنے پر مجبور کرنے کے الزام پر موصوف نے کہاکہ یہ طلبا ء کی ذاتی مرضی ہے ۔انہوں نے کہاکہ ’’ہم ہر طالب علم کیلئے رہائش کو یقینی بناتے ہیں لیکن ہم کسی کو ہوسٹل میں رہنے پر مجبور نہیں کر سکتے اور بہت سے طالب علموں کے پاس اپنے طور پر باہر رہنے کا انتظام بھی ہوتا ہے ‘‘۔پروفیسر اقبال پرویز نے مزید کہا کہ بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کے دروازے ہر اس شخص کیلئے کھلے ہیں جو کیمپس کا دورہ کرنا چاہتا ہے اور یونیورسٹی کے کام کاج کا جائزہ لے سکتا ہے۔