عادل نصیر
“تم چلے کیوں نہیں جاتے یہاں سے” حنیف صاحب نے آج پھر اسے دھتکارا مگر وہ گھر کے اس نیم روشن کمرے سے جانے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ شہر کے ذی وقار شخص اور ملک کے مشہور افسانہ نگار کا کہنا کوئی کیسے ٹال سکتا ہے۔حنیف صاحب اردو کے بہت بڑے افسانہ نگار ہیں اور احتجاجی ادب میں ان کا قد نہایت بلند سمجھا جاتا ہے۔ مگر پچھلے کئی برسوں سے ان کے قلم سے کوئی نئی کہانی خلق نہیں ہوپائی ۔اس کی کئی وجوہات ادبی حلقوں میں گردش کر رہی تھیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حنیف صاحب بوڑھے ہوگئے ہیں، کچھ ان کی علالت کا بہانہ پیش کررہے ہیں اور چند مخالفین تو ان کو سائیکو کہنے لگے ہیں، جسے وہ عام زبان میں مینٹل کہہ کر قہقہہ لگاتے ہیں۔لیکن کون کیسے غور کرتا کہ حقیقت تو اس نیم روشن کمرے کی دیواروں پر لٹکتی منٹو ، قاسمی، فیض اور غالب کی تصویروں میں تحلیل ہو چکی تھی۔
حنیف صاحب تیس برس کہانیوں کی دنیا میں رہے اور دسیوں بہترین کہانیاں لکھیں اور کئی یادگار کردار خلق کئے۔لیکن پچھلے چند برسوں سے جیسے ان کے اپنے ہی کردار بغاوت پر اُتر آئے ہوں اور ان کی کہانیاں ادھوری رہتی گئیں۔ وہ اس نیم روشن کمرے میں بضد بیٹھا کون ہے؟ان کے عالم تخیل سے لوٹ کر آنے والا ان کی بیشتر کہانیوں کا مرکزی کردار ہی تو ہے جو نیم روشن کمرے کے دھندلکے سناٹے کو نہ جانے کیوں کر چاہنے لگا ہے۔یہ طلمساتی وجود احتجاج اور انقلاب کی اسی اضطرابی دنیا سے بھاگ کر آیا ہے۔ جہاں حنیف صاحب نے اسی کے جیسے کئی کرداروں کے لہو سے بدلاو اور انقلاب کے کئ چمن آباد کیے تھے۔لیکن وہ افسانہ نگار حیران و پریشان ہو کر عجیب تماشا دیکھ رہا تھا کہ اس کی تخیلاتی اور انقلابی دنیا کا سب سے فعال اور مضبوط کردار ایک نیم روشن کمرے میں چھپ کر بیٹھا تھا۔
حنیف صاحب مضطرب تھے اور ان کا ہیرو خوفزدہ۔آج بارہویں دن بھی حنیف صاحب معمول کے مطابق اس کمرے میں داخل ہوئے اور اقبال کو جھنجھوڑ کر کہا:
” تم کب تک یہاں چھپ کر رہو گے، جاو یہاں سے۔میری کہانی نامکمل چھوڑ کر تم ایسے نہیں آسکتے۔جاؤ اور کہانی پوری کرو۔ تمہیں میں نے انقلاب اور انصاف کے لئے چنا تھا،تم میں غیرت پھونک دی تھی،تم میری کہانی میں نا انصافی اور افراتفری کی آگ کو بھڑکتے دیکھ کر یہاں چھپ نہیں سکتے، اٹھو اور یہاں سے چلےجاؤ”
اقبال کی خوفزدگی پر اس کا کچھ اثر تو نہیں ہوا مگر ان باتوں نے اس کی خاموشی کو ضرور توڑا:
“حنیف صاحب! آپ نے میرے ساتھ دھوکا کیا ہے۔ آپ نے مجھے انصاف اور انقلاب کی جھوٹی دنیا دکھائی، جھوٹی ہے آپ کی دنیا،جھوٹے ہیں آپ،جھوٹی ہیں آپ کی کہانیاں، جھوٹا ہوں میں،جھوٹا ہے آپ کا ہیرو،آپ کا انقلاب جھوٹا ہے۔آپ نے مجھے روشنی اور انقلابی صداؤں کی وادی دکھائی جبکہ حقیقت کی دنیا میں ہر طرف سناٹے کا پہرہ ہے،ظلمتوں کی حکومتیں ہیں، ہر سمت ناانصافی اور طاقت کا بول بالا ہے،جسے آپ کی کہانیوں کا یہ ہیرو کبھی بدل نہیں سکتا،آپ جھوٹے اور خود فریبی ہیں”
یہ کہہ کر وہ اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھا اور دروازے کے پاس رک کر حنیف صاحب کی اور مڑ کر کرخت لہجے میں کہا
” اب کے انقلاب نہیں آئے گا حنیف صاحب، قیامت آئے گی۔۔قیامت ”
دروازہ زور سے پٹک کر وہ بہت دور چلا گیا اور اوندھے منہ پڑے حنیف صاحب کی ادھ کھلی آنکھیں دیر تک اپنے کردار کو تاکتی رہیں یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوا۔
���
ہندوارہ ، کشمیر،[email protected]