جموں//سنٹرل فورینسک سائنس لیبارٹری نئی دہلی نے ڈی این اے ٹسٹ میں اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ دیوستھان میں ملنے والے بال 8سالہ خانہ بدوش بچی کے ہی تھے جس کو اجتماعی عصمت ریزی کرنے کے بعد بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ وکلاء صفائی ابھی تک اس بات کا دعویٰ کر رہے تھے کہ مقتول بچی کو دیو ستھان میں قید نہیں رکھا گیا تھا۔ سپیشل پبلک پراسیکیوٹر سنتوکھ سنگھ بسرہ اور جے کے چوپڑہ کے حوالہ سے بتایا گیاہے کہ سنٹرل فارنیسک لیبارٹری نئی دہلی رپورٹ میں یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ بچی کو عصمت دری کے بعد اور قتل سے قبل دیو ستھان میں رکھا گیا تھا۔ سی ایف ایل دہلی کی ماہر ڈاکٹر منیشا اپا دھیائے نے گزشتہ روز پٹھانکوٹ ضلع سیشن کورٹ میں گواہی دیتے ہوئے معزز جج کو بتایا کہ دہلی کی اس لیبارٹری میں کئے گئے ڈی این اے ٹسٹ میں اس بات کا بھی خلاصہ ہوا ہے کہ دیو ستھان سے دو قسم کے بال ملے تھے جن میں سے ایک تو مقتول بچی کے تھے جب کہ دوسرے بال اس نابالغ ملزم کے ہیں جو کہ دیگر7ملزمان کے ساتھ 8سالہ بچی کے قتل نامزد کئے گئے ہیں۔ معاملہ کی سماعت سپریم کورٹ کے حکم پر ضلع و سیشن جج ڈاکٹر تجویندر سنگھ کی عدالت میں جاری ہے ۔ اس سے قبل میڈیکل بورڈ نے بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کئے جانے کی بھی تصدیق کی ہے ۔ ایڈوکیٹ بسرہ نے بتایا کہ سی ایف ایل نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ بچی کے ساتھ زیادتی کے بعد خون بہا تھا، خون کا نمونہ بچی کی بچہ دانی سے لیا گیا تھا اور کرائم برانچ نے اسے لیبارٹری میں ٹسٹ کے لئے بھیجا تھا۔ استغاثہ کے ایک دیگر گواہ شبھم ملہوترہ ، جو کہ پیشہ سے دکاندار ہیں، نے معزز عدالت کو بتایا کہ دو ملزمان پرویش کمار منو اور اس کے نابالغ ساتھی نے اس سے نشہ آور 4کینڈیز خریدی تھیں ۔انہوں نے کہا کہ وکلاء صفائی کا یہ دعویٰ بھی بے بنیاد ثابت ہوا ہے کہ مقتولہ بچی کو نشہ آور ادویات نہیں دی گئی تھیں۔
کھٹوعہ قتل و عصمت دری معاملہ
