سرینگر+بانہال //وادی میںجمعہ کو شدید بارشوں کے نتیجہ میں اگر چہ گزشتہ ہفتوں کی طرح کٹھوعہ واقعہ کے خلاف عوامی احتجاج کا اثر کم ہی رہا لیکن جمعہ اجتماعات پر واعظین اور علماء نے اس شرمناک سانحہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ملوث افراد کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا۔ علماء نے فرقہ پرستوں کی جانب سے 8سالہ معصوم بچی کی آبروریزی اور قتل کو ایک منصوبہ بند سازش کا حصہ قرار دیتے ہوئے عوام سے متحد ہوکر رہنے کی اپیل کی۔ اوڑی میں واقعہ کے خلاف مکمل ہڑتال کی گئی جس دوران قصبہ میں تمام تعلیمی، تجارتی اور دیگر کاروباری سرگرمیاں معطل رہیں۔ ہڑتال کے دوران سڑکوں سے ٹریفک کی نقل و حمل بھی مکمل طور مسدود رہی۔ ہڑتال کے دوران عوام نے احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے واقعہ میں ملوث افراد کو سخت سزا دینے کا بھی مطالبہ کیا۔ تحصیل کنگن کے گنہ ون اور سونہ مرگ میں لوگوں نے نماز جمعہ کے بعد ایک احتجاجی جلوس نکالا ۔احتجاجیو ں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اُٹھا رکھے تھے جس پر آصفہ کو انصاف دو کے نعرے درج تھے ۔احتجاجی مطالبہ کررہے تھے کہ کھٹوعہ میں پیش آئے آٹھ سالہ کمسن بچی کی عصمت دری اور قتل واقعہ کے ملوثین کو پھانسی دی جائے ۔ضلع رام بن کے متعدد قصبوں میں ہڑتال رہی اور نماز جمعہ کے بعد احتجاجی مظاہرئے بھی کئے گئے۔رام بن میں مظاہروں کی وجہ سے شاہراہ پر گاڑیوں کی آمدورفت کچھ وقت کیلئے روک دی گئی۔ کٹھوعہ کی معصوم بچی کو فوری انصاف فراہم کرنے اور قاتلوں کو سخت سزا دینے کی مانگ کو لیکر بانہال، کھڑی ، رامسو اور مکرکوٹ میں مکمل ہڑتال کی گئی جبکہ کھڑی ، ترنہ ترگام ، رامسو ، مکرکوٹ ، نیل ، رام بن اور چندرکوٹ میں نماز جمعہ کے بعد زبردست احتجاجی مطاہرے کئے گئے۔ شدید بارشوں کے باوجود ہزاروں لوگوں نے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی۔ ہڑتال کی وجہ بانہال ، کھڑی اور رامسو میں دکانیں اور کاروباری ا دارے بند رہے جبکہ مقامی ٹرانسپورٹ بھی سڑکوں سے غائب رہا۔ رامسو اور مکرکوٹ سے دو احتجاجی جلوس برآمد ہوئے جو شاہراہ سے ہوتے ہوئے مکرکوٹ میں احتجاجی مظاہروں اور تقریروں کے بعد اختتام پذیر ہوئے۔ قصبہ کھڑی اور ترگام میںبھی احتجاجی مظاہرے ہوئے۔دریں اثناء خطہ چناب کے بھدرواہ ، رام بن اور کشتواڑ میں بھی کٹھوعہ واقعہ کے خلاف مکمل ہڑتال رہی جس دوران لوگوں نے واقعہ کی فاسٹ ٹریک بنیادوں پر انکوائری مکمل کرنے کا مطالبہ کیا۔ مجلس شوریٰ کشتواڑ اور انجمن اسلامیہ بھدرواہ کی مشترکہ کال پر جمعہ کوہڑتال کے دوران اگر چہ دوکانیں اور دیگر کاروباری سرگرمیاں پوری طرح معطل رہیں مگر سرکاری و غیر سرکاری دفاتر ہڑتال کال سے مستثنیٰ رکھے گئے تھے اور ٹریفک کی آوا جاہی پر بھی کوئی اثر نہیں پڑا۔