کورونا وائرس کی مختلف علامتیں اب بھی5فیصد متاثرین میں موجود لمبے عرصے تک کورونا میں مبتلا ہوئے لوگوںکی تعداد زیادہ، عالمی سطح پر کی گئی نئی تحقیق

 عظمیٰ نیوز سروس

سرینگر //عالمی سطح پر کورونا وائرس متاثرین پر کورونا کے اثرات جانے کیلئے کی گئی تحقیق کے بعد وائرس کی موجود صورتحال ، علامتیں اور مستقبل میں اس کے علاج و معالجے کے بارے میں جانکاری فراہم کی گئی ہے۔ایریزونا، آکسفارڈ اور لیڈز یونیورسٹیوں کے محققین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس اگر تین ماہ سے زیادہ عرصے تک رہتا ہے تو اس کو لمبے کورونا وائرس کے زمرے میں لایا جاتاہے اور یہ بیماری انسان کے مختلف عضاء کومتاثر کرتی ہے، جن کی وجہ سے انسانی جسم کے مختلف عضاء کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

 

محققین کا کہنا ہے کہ چند علامتیں جن میں تھکاوٹ، سانس میں تکلیف اور دیگر بیماریاں اس کی علامتوں میںشامل ہیں۔ محققین کے مطابق لمبے کورونا وائرس سے تمام عمر کے لوگ اور بچے متاثر ہوسکتے ہیں ۔ یہ بیماری خط افلاس سے نیچے زندگی گزر بسر کرنے والی خواتین میں زیادہ پائی جاتی ہے اور اس کی وجہ سے مختلف یونیورسٹیوں کی تحقیق میں اس بیماری کے حوالے سے سامنے آنے والے نتائج میں فرق ملتا ہے۔ تحقیق میں یہ سامنے آیا ہے کہ کچھ لوگ لمبے کویڈ وائرس سے آہستہ آہستہ تھک جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگوں میں یہ بیماری کئی سال تک رہتی ہے ۔ کچھ لوگوں کو کورونا ویکسین سے پہلے بیماری ہوئی تھی جو ابھی بھی ہے۔ایجز کنسورٹیم کے ڈائریکٹر اور یو آف اے کالج آف میڈیسن کے پروفیسر جنکو نکولچ نے کہا ہے کہ دیر تک کورونا وائرس کی بیماری سے نہ صرف انسانی جانوں کا زیاں ہوتا ہے بلکہ یہ سماجی اور اقتصادی طور پر بھی لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کو تفصیل سے سمجھنے اور ان کے طریقے کار کو سمجھنے سے ہم اس کے خلاف علاج نکالنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں لیکن دماغ میں انفیکشن اور عصبی نظام کو متاثر کرنے والی بیماریاں ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے کورونا ویکسین اور اس کے تمام بوسٹر ڈوز لئے ہونگے تو ان میں دائمی کورونا وائرس کی بیماری ہونا مشکل ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت بھی پوری دنیا میں 3سے 5فیصد لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہورہے ہیں ۔ سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پرووینشن(Centers for Disease Control and Prevention) کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں ابھی بھی سالانہ 4سے 10فیصد لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہوتے ہیں اور ہر 10بالغوں میں سے ایک کو کورونا وائرس ہورہا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اس میں مختلف حیاتیاتی طریقہ کا ر شامل ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے انسانی جسم میں یہ وائرس کافی دیر تک موجود رہتا ہے، معدافتی نظام کو رد عمل کو متاثر کرتا ہے اور خون کو منجمد کرنے کے علاوہ معمولی نوعیت کے انفکیشن پیدا کرتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ابتک کورونا وائرس کا کوئی بھی موثر علاج موجود نہیں ہے لیکن اس کی علامتوں کو قابو کرکے مریض کو راحت ملتی ہے۔ محقیقین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کیلئے تشخیصی عمل جیسے خون کا ٹیسٹ اور دیگر تشخیصی عمل کی نشاندی کرنا لازمی ہے جن سے لمبے کورونا وائرس کو قابو میں لایا جاسکتا ہے تاکہ ان کی اصل وجہ کو جان کر اس کا مکمل علاج دریافت کیا جاسکے۔ محققین کا کہنا ہے کہ لوگ کوڈ سے دور رہ سکتے ہیں اگر وہ انفکیشن سے دور رہے اور اس کیلئے بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پر ماسک کا استعمال ، کورونا وائرس کے انبفکیشن کے دوران سخت ورزش اور کورونا وائرس کے ویکیسن بوسٹر سمیت لینا ضروری ہے۔ اس دوران آکسفورڈ یونیورسٹی کے پرائمری کیئر ہیلتھ سائنسز کے پروفیسر اور قلمکار تریشہ گرینہالگ نے کہا کہ اس کے علاج کیلئے مختلف سطحوں پر تحقیق جاری ہے۔