سرینگر//کشمیر پنڈت سنگھرش سمیتی کے ممبران نے دوسرے مرحلے میں مبینہ طور پر جموں کشمیر کی انتظامیہ کی جانب سے اعلی انتظامیہ،مرکزی حکومت ،ہائیکورٹ اور اعلیٰ حکام کی جانب سے سفارشات اور ہدایات کو سبوثاژ کرنے کے خلاف تا دم مرگ بھوک ہڑتال کے168گھنٹے مکمل کئے۔کشمیر پنڈت سنگھرش سمیتی کا کہنا ہے کہ مرکزی زیر انتظام علاقے کی انتظامیہ کی جانب سے یقین دہانی کرائی جانے کے بعد ہی انہوں نے بھوک ہڑتال تا دم مرگ کا پہلا مرحلہ ختم کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ انتظامیہ نے تمام مطالبات کو تسلیم کیا تھا اور غیر مہاجر کشمیری پنڈت طبقے کے وسیع تر مفاد میںان پر زمینی سطح پر صفر پر عملدرآمد کیا گیا۔ان کا کہنا ہے کہ وہ کشمیرمیں گذشتہ 30 برسوں کے دوران تمام مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔کشمیر پنڈت سنگرش سمھتی اس بات پر برہم ہے کہ جموں کشمیر انتظامیہ اس معاملے کو جس طرح نپٹ رہی ہے، اس سے واضح طور پر وادی کشمیر میں مقیم غیر مہاجر کشمیری پنڈتوں،کشمیری ہندوؤں کے بارے میں انتظامیہ کے منفی عزائم کی نشاندہی ہوتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد وادی میں مقیم غیر مہاجر کشمیری پنڈت، کشمیری ہندو سیاسی اور انتظامی تنہائی کا سامنا کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کشمیر میں رہائش پذیر ہندئوں اور پنڈتوں کی ناگفتہ بہہ حالات کی طرف انتظامیہ توجہ دینے میں ناکام رہی۔ان کا کہنا تھا’’ ہم یہ سمجھنے میں ناکام ہیں کہ جو لوگ’قوم پرستی کا دعوی کرتے ہیں وہ کس طرح اپنے ہم وطن لوگوں کو نظرانداز کرسکتے ہیں جو قوم کے لئے کھڑے ہوئے اور انہوں نے مشکل وقت میں بھی ملک کی سلامتی کے لئے کردار ادا کیا۔‘‘انہوں نے مطالبہ کرتے ہوئے وزیر اعظم کے ملازمت پیکیج کی500اسامیوںمیں توسیع اور 808غیر مہاجر کشمیری پنڈتوں اور ہندئوں کیلئے فی کنبہ ایک نوکری فراہم کی جائے۔کشمیر پنڈت سنگرش سمھتی نے کہا کہ ریلیف و باز آبادکاری کے سلسلہ میں دانستہ طور پر4برسوں تک عمل میں تاخیر کی،اس لئے نوکری حاصل کرنے کی عمر کوپار کرنے والے امیدواروں کی عمر میں یکبار رعایت دی جائے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے ریلیف اور بحالی پیکیج کے تحت مستحق غیر مہاجر خاندانوں کو رہائش فراہم کی جائے جبکہ وادی میں مقیم808غیر مہاجر ہند و پنڈت کنبوں کو ضروری مالی مدد دی جائے۔انہوں نے کہامہاجر ویلفیئر فنڈ میں غیر مہاجر کشمیری پنڈتوں،اورکشمیر میں مقیم کشمیری ہندوؤں میں فوائد اٹھانے میں توسیع کا بھی مطالبہ کیا گیا جبکہ کشمیر میں مذہبی اقلیت سے وابستہ مندروں اور دیگر مذہبی اداروں کے تحفظ ، تحفظ اور بحالی کی بھی وکالت کی گئی۔