کشمیری قالین صنعت دم توڑنے کے قریب، جی آئی ٹیگنگ سے بحالی کی اُمید | 1970کی دہائی میں ابتدا ہوئی، 1980میں عروج ملا، 1990کے بعد زوال پذیر

سرینگر // جموں و کشمیر سرکار کی انتھک کوششوں کے باوجود بھی کشمیر میں قالین بافی کی صنعت زول پذیر ہے۔کشمیر میں قالین بافی سے جڑے افراد کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر مندی،صحت پر مرتب ہونے والے مضر اثرات،جدید ٹیکنالوجی کو متعارف کرانے میں تاخیر، آمدنی میں کمی اور کوئی خاطر خواہ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ہنر مند افرادروز گار کے دیگر ذرائع کی تلاش میں ہیں۔ محکمہ ہنڈی کرافٹس حکام کے مطابق تربیت ، سستے شرح سود پر قرضے اور مارکیٹنگ سپورٹ فراہم کرنے کے بائوجود بھی قالین بافی سے وابستہ افراد کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔ سال 1976میں جموں و کشمیر کے شہری اور دیہی علاقوںمیں قالین بافوں کی تعداد بڑھانے کیلئے محکمہ ہنڈی کرافٹس و ہینڈلوم نے Massive carpet scheme کا آغاز کیا اوراسکیم کے تحت سرینگر اور بڈگام میں ہزاروں نوجوانوں کو تربیت دی گئی لیکن قالین بنانے والے افراد کی تعداد 7103تک سکڑ گئی ہے۔جموں و کشمیر میں سال 1976میںقالین بافوں کو تربیت دینے کیلئے 553تربیتی مراکز قائم کئے گئے تھے لیکن اب قالین بنانے کی تربیت دینے والے مراکز کی تعدادصرف 35رہ گئی ہے۔ محکمہ ہنڈی کرافٹس نے بتایا ’’ سال 2014میں جموں و کشمیر میںقالین بافی سے وابستہ ہنر مندوں کی تعداد 1لاکھ80ہزار کے قریب تھی لیکن اب یہ تعدادکچھ سو رہ گئی ہے۔ محکمہ ہنڈی کرافٹس اسسٹنٹ ڈائریکٹر شارق اقبال نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ عالمی وباء کی وجہ سے دستکاریوں کے برآمدات میں کمی آئی ہے اور قالین بھی ان میں شامل ہے، لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ اس دستکاری کو کئی مشکلات کا بھی سامنا ہے‘‘۔انہوں نے کہا ’’ بیرون ریاستوں سے آنے والے قالین کو کشمیر ی قالین کے نام پر فروخت کیا جاتا رہا لیکن اب کشمیری قالین کوبھی جی آئی ٹیگ مل گیا ہے اور ہر ایک قالین پر لگی لیبل چسپاں ہوگی جس پر دستکار کا نام ، قالین کے میٹریل اور دیگر ضروری جانکاری دینا لازمی بن گیا ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ قالین کی صنعت کو بچانے کیلئے کانی شال کی طرح ہی ایک ٹورسٹ ولیج  قائم کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ تربیتی سینٹر بھی قائم کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چند قالین بافوں کو مارکیٹنگ میں مدد دینے کیلئے Amazonاور جیم پورٹل پر بھی رجسٹر کیا گیا ہے جہاں سے خریدار سیدھے قالین باف سے رابطہ کرسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ ہنڈی کرافٹس ہر ممکن کوشش کررہا ہے کہ قالین صنعت کی شان رفتہ کو دوبارہ بحال کیا جاسکے۔کشمیر میں قالین بنانے والے افراد کی 
تعداد میں کمی کی بڑی وجہ عالمی منڈی میں ایرانی قالین کا داخل ہونا اور کشمیری قالین کی مانگ میں کمی کو تصور کیا جاتا ہے۔سال 2012میں کشمیری قالین کی بر آمدات 567.13کروڑ روپے تھی جو سال 2021میں 267کروڑ روپے کی کمی کے ساتھ 299.56کرور روپے پر سمٹ گئی۔ قالین بنانے والے استاد ہلال احمد نے بتایا ’’ 80کی دہائی میں سرکاری ملازموں کی تنخواہیں 250سے 1100روپے کے درمیان ہوتی تھی جبکہ قالین باف ماہانہ 1500روپے تک کماتا تھا ‘‘۔ہلال احمد نے بتایا ’’ 90کی دہائی میں برآمد کاروبار زیادہ تھا اور قالین کی صنعت پورے عروج پر تھی ‘‘ ۔ ہلال نے بتایا ’’ بین لاقوامی سطح پر مانگ میں کمی کی وجہ سے سال 1990میں کشمیری قالین کی صنعت کو زبردست دھچکہ لگا ‘‘۔ہلال نے بتایا ’’ اس سے قبل کہ قالین عالمی مندی سے نکلتا ، ایرانی قالین بازار میں آگئے جو جدید رنگوں اور نقشوں کی وجہ سے زیادہ دلکش ہیں جبکہ ان کی قیمتیں بھی کشمیری قالین سے بہت کم ہیں‘‘