مفتی نذیر احمد قاسمی
۔۲۹؍رمضان :چاند کا انتظار اور تراویح
سوال:-29؍رمضان کی شام کو لوگ چاند کے انتظار میں رہتے ہیں ۔ اسلئے کچھ لوگ کہتے ہیںکہ تراویح مت پڑھو جب تک چاند کافیصلہ نہ ہوجائے اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب تک عید ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ نہ ہو جائے اُس وقت تک انتظار کرو ۔ پھر یہ انتظار کبھی دس گیارہ بجے تک پہنچ جاتاہے ۔ پھر اگر عید نہ ہونے کا اعلان ہوتاہے تو پژمردہ ، دل ملول ہو کر کچھ لوگ تراویح پڑھتے ہی نہیں اور کچھ لوگ بادلِ نخواستہ پڑھتے ہیں ۔ اسلئے رہنمائی فرمائی جائے کہ کیا کرنا ہوتاہے ؟اور کیا کرنا چاہئے ۔
عبدالرشید …پامپور ، کشمیر
جواب:-رمضان المبارک کی ۲۹؍تاریخ کی شام کو جب تک چاند کے نکل آنے کی یقینی اطلاع نہ آئے اُس وقت تک رمضان قائم اور موجود ہے اور عید ہونا مشکوک ہے تو رمضان کا وجود قطعی ہے ۔ اس لئے ساری دنیا کے لئے اصول بھی یہی ہے اور اسی پر عمل بھی ہے کہ جوں ہی نمازِ عشاء کا وقت آئے اپنے وقت پر نماز کھڑی کی جاتی ہے اور تراویح بھی پڑھی جاتی ہے ۔ پھر اگر تراویح شروع کرنے سے پہلے اعلان ہوجائے کہ عید کا چاند نظر آگیا ہے تو تراویح نہ پڑھی جائے اور اگر چاند نظر آنے یا نہ آنے کی ابھی کوئی اطلاع ہوتو تراویح اپنے وقت پر شروع کردی جائے ۔ اگر بعد میں اعلان ہوگیا کہ عید کا چاند نظر نہیں آیاہے تو تراویح ادا ہونا درست ہوا اور رمضان کا ایک دن اور مل گیا اور اگر اعلان ہوگیا کہ چاند نظر آگیا تو تراویح پر نفل کا اجرملے گا اور اگر وتر کی نماز جماعت سے پڑھی گئی وہ اداہوچکی ہے۔ اس لئے ٹھیک اپنے وقت پر تراویح شروع کرنا درست ہے تاہم اگر کہیں انتظار کیا گیا اور بعد میں چاند نظر نہ آنے کااعلان ہوا تو مایوس ، پژمردہ اور مضمحل ہونے کے بجائے خوشدلی ، نشاط اور عمدہ جذبہ سے تروایح پڑھی جائے اور شکر کیا جائے کہ رمضان کا ایک دن اور نصیب ہوا اور تراویح کے لئے سربسجود ہونے کا ایک موقعہ اور مل گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دینی معلومات کیلئے علمی مقابلے منعقد کرانامفید
سوال:-آج کل قسم قسم کے مقابلے ہوتے ہیں۔مثلاً اسکولوں میں مختلف مقابلے ، جن میںسیرت کوئز بھی شامل ہے ،منعقد ہوتے ہیں ۔اس میں سیرت رسولؐ کے بارے میں کچھ اچھوتے سوالات پوچھے جاتے ہیں ۔ اسی طرح قرآن کے متعلق بھی مختلف سوالات کئے جاتے ہیں جن میں بعض سوالات انوکھے ہوتے ہیں۔ان مقابلوں کا بالعموم مقصد اسلام، قرآن اورسیرت پاک ؐکے بارے میں طلبہ میں دلچسپی کو جگانا ہوتاہے ۔ یہ سلسلہ کیساہے؟
سجاد احمد…سرینگر
جواب:-دینی معلومات کے لئے اس طرح کے علمی مقابلے یقیناً دُرست ہیں ۔ خود حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی حضرات صحابہؓ سے سوالات فرماتے تھے کہ وہ اپنے علم وفہم سے جواب دیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے پوچھا : درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے جو مومن کے مشابہ ہے ،بتائو وہ کون سا درخت ہے ؟ صحابہ سوچتے رہے مگر جواب نہ دے سکے ۔اس کے بعد آپؐ نے ارشاد فرمایا وہ کھجورکادرخت ہے ۔ بعد میں حضرت عبداللہ نے اپنے والد گرامی حضرت عمرؓ سے عرض کیا کہ اس سوال پر میرے ذہن میں یہی جواب آیا تھاکہ وہ کھجورکادرخت ہے مگر میں اپنے چھوٹے پن کی وجہ سے ہمت نہ کرسکا اور شرما گیا اس لئے خاموش رہا کہ بڑوں کی موجودگی میں کسی چھوٹے کا بولنا بے ادبی ہے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے صاحبزادے کی یہ بات سن کر فرمایا ۔ کاش تم نے جواب دیا ہوتاتو مجھے زیادہ خوشی ہوتی ۔ یہ حدیث بخاری ومسلم میں ہے ۔ اب کھجورکے درخت کو مومن کے ساتھ تشبیہ دینے کی وجہ کیا ہے ؟ یہ ایک تفصیلی بحث ہے جو حدیث کی شروحات سے معلوم ہوسکتی ہیں ۔بہرحال علمی ترقی کے لئے اس طرح سوالات کرنا دُرست ہے ۔ کوئز چاہے قرآن وسیرت کی معلومات سے متعلق ہوں یا کسی دوسرے شعبۂ دین سے متعلق بہرحال مفید ہیں ۔ مگر اس میں چند باتیں اصلاح طلب ہیں۔ بے فائدہ معلوماتی سوالات کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔مثلاً بتائیے قرآن میں شیطان کا لفظ کتنی بار آیاہے ۔ یہ ایک بے فائیدہ سوال ہے ۔ اس کے مقابلے میں مثلاً روزہ کا حکم قرآن میں کتنی مرتبہ آیا ہے ۔ یہ ایک مفید سوال ہے یا کہ فرعون کا لفظ کہاں کہاں ہے ۔یہ بے فائدہ سوال ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ بات ضروری ہے کہ سوال کا جواب دینے والے خود اپنی محنت اور مطالعہ سے جوابات پیش کریں ۔ دوسروں سے پوچھ کر جواب دینا اس مفید سلسلہ کی افادیت کو ختم کردیتاہے ۔
ظاہرہے کہ کوئز کا مقصد مطالعہ کا ذوق پیدا کرنا ، معلومات حاصل کرنے کا مزاج بنانا اور کتابوں کی ورق گردانی اور محنت وسعی کا خُوگر بنانا ہے ۔اب اگر سوالات کا پرچہ لے کر ایک دوسرے سے معلومات اکٹھی کی گئیں تاکہ متوقع انعام حاصل کریں تو یہ بے فائیدہ کام ہے ۔ اس میں ممکن ہے انعام مل جائے مگر جس ذوق کی آبیاری ہونی چاہئے تھی وہ تن آسانی اور دوسروں سے معلومات لے کر خود مطالعہ وتحقیق نہ کرنے کے سست مزاج کی وجہ سے مفقود ہوگیا ۔
لہٰذا کوئز تیار کرنے والے اس پہلو کو ضرورملحوظ رکھیں کہ جواب دینے والے دوسروں سے پوچھنے کے بجائے خود مطالعہ ومحنت پر مجبور ہوجائیں ۔ کبھی سوالات مرتب کرنے والے خود کوئی کتاب لے کر انوکھے قسم کے سوالات جمع کردیتے ہیں جب کہ خود اُن کو بھی اس قسم کے سوالات کے جوابات دینے کی اہلیت نہیں ہوتی مگر کتاب کے سہارے سوالات مرتب کردیئے گئے اور اب وہ دوسروں سے جوابات کے منتظر ہوتے ہیں ۔
سوالات مرتب کرنے میں انوکھے پن کے بجائے افادیت کے پہلوکو اور اس سے زیادہ فکری پہلو کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہئے ۔یہ فکری پہلو ایمانی ،عباداتی ، اخلاقی او راصلاحی ہو۔ مثلاً یہ سوال کہ بتائیے قرآن کی وہ کون سی سورت ہے جس میں نبی (علیہ السلام) سے کہا گیا کہ آپ کا فروں سے کہئے تمہارا دین الگ میرا دین الگ ہے ۔یا یہ سوال کہ بتائیے وہ کون سی سورت ہے جس میں اُن نمازیوں کے لئے ویل (بربادی)بیان کی گئی ہے جو نماز میں سستی وغفلت برتتے ہیں ۔ وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱-زید نے ۲۰۰۹ء میں کچھ زمین خرید لی اور دوسال میں زمین بیچ ڈالی او راس پر کچھ منافع بھی کمایا۔اب سوال یہ ہے کہ زید کی جواصل رقم ہے اُس پر اور جو کچھ منافع کمایا اُس پر کیا زکوٰۃ واجب ہے ۔ اگرزکوٰۃ واجب ہے تو اصل رقم اور منافع کی رقم کی زکوٰۃ کس طرح نکالی جائے گی ۔ جب کہ کہاجاتاہے زمین پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی ہے ۔
سوال :۲-مسلمانوں کا ایمان ہے کہ موت برحق ہے اور موت اپنے وقت پر آتی ہے اور چونکہ مسلمانوں کی زندگی کا مقصد آخرت میں سرخروئی ہے تو پھر ہم لوگ کسی کی موت پر کیوں روتے اور ماتم کرتے پھرتے ہیں۔کہیں یہ ہم شریعت کے خلاف تو نہیں کرتے ؟
شوکت حسین …بٹہ مالو ،سرینگر
برائے فروخت اراضی پر زکوٰۃ لازم
جواب:۱-زمین خریدنے کے وقت اگر نیت یہ تھی کہ اس زمین پر فصل اُگائی جائے گی یا باغ لگایا جائے گا یا اس زمین پر مکان یا دوکان تعمیر کی جائے گی تو اس صورت میں اس زمین پر زکوٰۃ لازم نہ ہوگی اور اگر زمین خریدتے وقت یہ نیت تھی کہ اس زمین کو فروخت کیا جائے گا تو اس صورت میں یہ زمین ایسے ہی ہے جیسے دوکان کا مالِ تجارت ہوتاہے ۔ اس صورت میں اس زمین کی قیمت پر بہرحال زکوٰۃ لازم ہوگی او رجس وقت زکوٰۃ اداکرنی ہواُس وقت اس زمین کی جو قیمت مناسب ہواُس پرزکوٰۃ لازم ہوگی۔ چاہے یہ قیمت کم ہویا زیادہ ۔اور چاہے سالہاسال تک یہ زمین فروخت نہ ہوسکے مگر چونکہ نیت فروخت کرنے کی ہے اس لئے ہرسال اُس کی قیمت پرزکوٰۃ اداکرنا ضروری ہے ۔ پھر جب زمین فروخت ہوجائے تو اس کی پوری قیمت فروخت پر اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ اداکرنا لازم ہے۔ یعنی ایک لاکھ میں اڑھائی ہزار روپے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کے وفات پر غمزدہ اور اشکبار ہونا
اسلام عقل اورفطرت کے منافی نہیں
جواب:۲-ہرشخص کی موت طے ہے اور وہ وقت مقررہ پر آنابھی طے ہے ۔ اُس میں نہ تاخیر ہوسکتی ہے نہ تقدیم لیکن انسان فطرتاً جدائیگی پر غم زدہ ہوتاہے ۔ چنانچہ حضرت سید المرسلین علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صاحب زادۂ گرامی حضرت ابراہیم کی وفات ہوئی جب کہ وہ ابھی شیر خوارگی کی عمر میں تھے توحضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آنکھوں سے بے اختیار آنسو گرنے لگے ۔
ایک صحابی حضرت عبدالرحمٰنؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا آپ بھی رو پڑے۔ارشاد ہوا یہ وہ محبت ہے جو اللہ نے ہر دل میں رکھی ہے ۔ گویا غم زدہ ہونا ، اشکبار ہونا عمل رسولؐ سے ثابت ہے۔ لہٰذا کسی کی وفات پر غمزدہ ہونا ، بے اختیار آہیں بھرنا اور اشکبار ہونا نہ اسلام کے خلاف ہے نہ عقل انسانی کے خلاف ہے اور نہ فطرت انسانی کے منافی ہے ۔
ہاں بناوٹی انداز میں چیخ وپکار کرنا ، چہرہ پیٹنا ، کپڑے پھاڑنا ،بال نوچنا اور واویلا کرنا حدیث کی رُو سے منع ہے۔ چنانچہ ارشاد نبویؐ ہے کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو چہرا پیٹے ، کپڑے پھاڑے اور جاہلانہ انداز کی چیخ و پکار کرے ۔(بخاری ومسلم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔