کام کرنے میں شرم کیسی !

  جموں وکشمیر میں بے روزگاری کابحران سنگین ترہوتا جارہاہے ۔بیروزگاروںکی فوج میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔جبکہ دوسری جانب ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارانوجوان سرکاری سیکٹرکے علاوہ دائیںبائیںکہیںدیکھنے کو تیارہی نہیں ہے ۔معاشی سرگرمیوں کا کوئی ایک شعبہ اتنا بڑا نہیں ہو سکتا جوہمارے تمام نوجوانوں کو ایڈجسٹ کر سکے۔ سب سے بڑا روزگار فراہم کرنے والی حکومت ہوتی ہے تاہم وہ بھی ایک حد سے زیادہ لوگوں کو روزگار نہیں دے سکتی ہے۔اب حالات بدل رہے ہیں۔ حکومت کے محکموں میں بھی روزگارکے مواقع بتدریج سکڑتے چلے جارہے ہیں۔ کاروبار کی معمول کی شکلوں میںبھی مقابلہ زیادہ سے زیادہ سخت ہوتا جا رہا ہے۔نئے آنے والوں کیلئے پیسے اور مارکیٹ کے مسائل کا سامنا کرنا آسان نہیں ہے۔ اس سب کا خالص اثر یہ ہے کہ اچھی زندگی گزارنے کے مواقع کم سے کم ہوتے جا رہے ہیںاور یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔ روزگار کے مناسب مواقع کی عدم موجودگی میں ہمارے نوجوانوں کے مایوس ہونے کا خطرہ ہے اور یہ مایوسی کئی سماجی مسائل کو جنم دیتی ہے۔ دراصل یہ ہمارے معاشرے میں پہلے ہی ہو رہا ہے۔افسردگی اور تناؤ کی بڑھتی ہوئی سطح اسی کا اشارہ ہے۔ منشیات کی لت کے بہت سے معاملات ہیں جو اس سے منسلک ہو سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ خودکشی کے معاملات میںاچھال کا رجحان بھی اس سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔ اس صورتحال میں امکانات کو وسعت دینا اور ہمارے نوجوانوں کیلئے مزید راستے دستیاب کرنا انتہائی ضروری ہے۔اچھی خبر یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اچھی مثالیں سامنے آرہی ہیں۔ بہت سے نوجوانوں نے کم سرمایہ کاری کے ساتھ اپنا کاروبار قائم کیا ہے اور بہتر منافع حاصل کر رہے ہیں۔ ٹراؤٹ فارمنگ جیسے شعبے اچھے معاشی مواقع فراہم کر رہے ہیں۔بہت سے نوجوان ہیں جنہوں نے ٹراؤٹ فارم قائم کئے ہیں اور اچھے پیسے کما رہے ہیں۔ کشمیر میں بہت سے ایسے علاقے ہیں جو اس سرگرمی کے لئے موزوں ہیں اور ہمارے نوجوان بہت کم سرمایہ کاری کے ساتھ لیکن ایک نظم و ضبط سے ایک اچھا کاروبار قائم کر سکتے ہیں۔اس طرح کی دوسری سرگرمیاں بھی ہیں جن سے ہمارے نوجوان ،خاص طور پر دیہات میں موجودنوجوان روایتی وسائل کی بنیاد سے کاروبار شروع کر سکتے ہیں۔ اگر صرف صحیح معلومات ، صحیح تکنیک اور صحیح خیالات کو استعمال کیا جائے تو ہم اپنے بہت سے علاقوں میں شاندار کاروبار قائم کر سکتے ہیں جہاں نوجوان عام طور پر کم تنخواہ والی نوکریوں کے لئے اپنی ساری زندگی دائو پر لگادیتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سرکاری نوکریوںپر اکتفاکرناچھوڑدیں۔ ایک دفعہ جب ہم ایسا کریںگے تو یقینی طور پر راستے کھل جائیں گے اورہمیںروزگارکے نت نئے مواقع نظرآجائیں گے۔دوسری جانب ارباب بست وکشادکی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نجی سیکٹرمیںروزگارکے حصول کو آسان بنانے کیلئے مسلسل کوششیںکریں۔اس ضمن میںجہاںایسے شعبوںکوفروغ دینالازمی ہے جن سے روزگارکے وسیع امکانات پیدا ہوسکتے ہیں وہیںروزگارکاحصول یقینی بنانے کیلئے سرکاری معاونت اہم ہے کیونکہ ہمارے نوجوانوں کے پاس کوئی سرمایہ نہیںکہ وہ اپناکاروبارخودشروع کرسکیں۔سرکار سرمایہ فراہم کرے اوراس بات کو بھی یقینی بنایاجائے کہ یہ سرمایہ مالی اداروں کیلئے سودکمانے کاذریعہ نہ بنے بلکہ مالیاتی اداروں کو اس بات کاپابند بنایا جائے کہ وہ کم شرح سودپرشرائط کے بغیرنوجوانوںکیلئے سرمایہ دستیاب رکھے اورحکومت اس سرمایہ سبسڈی دستیاب رکھے تاکہ ہمارے نوجوان اُس سبسڈی کافائدہ اٹھاکر اپنے پیروں پرکھڑا ہوسکیں۔جتنے زیادہ نوجوان اپنے پیرو ں پرکھڑا ہوجائیں گے ،اُتناہی روزگار کے مواقع دستیاب ہوتے چلے جائیںگے اورجتنے زیادہ روزگار کے مواقع دستیاب ہونگے ،اُتنابیروزگاری پرقابوپانے میںمددملے گی۔امیدکی جانی چاہئے کہ نوجوان اورسرکاردونوں اپنی ذمہ داریوں کاادراک کرتے ہوئے اپنے حصے کا چراغ روشن کریںگے جس کے نتیجہ میں روشنی کاپھیلناطے ہے اورجوں جوں روشنی پھیلتی چلی جائے گی،مایوسیوں کا اندھیراچھٹتاچلا جائے گا اور امیدوںکی ایک نئی صبح یقینی پر طلوع ہوجائے گی جہاں خوشحالی کے خواب ہونگے ،ترقی کے ارادے ہونگے اورہاتھوں میںہاتھ لیکر آگے بڑھنے کاولولہ ہوگا۔