سرینگر// نیشنل کانفرنس صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بیرون ریاستوں میںنظر بند قیدیوں کی منتقلی کیلئے سبھی سیاسی جماعتوں کے لیڈران سے حمایت طلب کرلی ہے۔7ماہ کی نظر بندی کے بعد ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے رہائی کے دوسرے روز خاموشی توڑتے ہوئے جموں کشمیر کے تمام سیاسی لیڈران پر زور دیا کہ وہ بیرونِ ریاست جیلوں میں نظربند افراد کی جموں وکشمیر منتقلی کیلئے یک زبان ہوجائیں۔ایک بیان میں انہوں نے کہا’’13مارچ کو نظربندی سے رہائی پانے کے بعد میں نے جان بوجھ کر سیاسی بیان دینے سے گریز کیا، میں آزادانہ اور بے باک سیاسی خیالات کے تبادلے میں یقین رکھتا ہوں تاکہ ہم جموں و کشمیر میں5 اگست 2019 کے بعد ہوئی اہم تبدیلیوں کا احاطہ کرسکیں، تاہم ہم اُس سیاسی ماحول سے ابھی بہت دور ہیں جہاں ایسا کرنا ممکن ہو، خاص طور اس لئے کیونکہ گذشتہ سال اگست میں گرفتار کئے گئے افراد میں سے بیشتر ابھی ریاست اور ریاست کے باہر جیلوں میں نظربند ہیں۔ ‘‘ڈاکٹر فاروق نے کہا’’اس سے پہلے سیاست ہمیں تقسیم کرے میں ریاست کے تمام سیاسی لیڈران سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ یک زبان ہوکر حکومت ہند پر زور دیں کہ جموں وکشمیر سے باہر نظربندریاستی قیدیوں کی فوری واپسی عمل میں لائی جائے،یہ ایک انسانی مسئلہ اور مطالبہ ہے اور مجھے امید ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس مطالبہ کوحکومت ہند کے سامنے رکھنے میں میرا ساتھ دیں گے۔‘‘ انہوں نے کہا’’میں اس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ سینکڑوں کشمیری خاندانوں کے مقابلے میں ،میں زیادہ خوش نصیب رہا کیونکہ مجھے اپنے گھر میں نظربند کردیا گیا اور میرے اہل خانہ کی مجھ تک رسائی تھی،کل میں اپنے بیٹے عمر سے ملنے گیا ، جو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ابھی زیر حراست ہیں، مجھے اس سے ملنے کیلئے اپنے گھر سے ایک کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑا، جبکہ زیادہ تر نظربند افراد کے اہل خانہ کیلئے اپنے عزیزوں سے ملنا اتنا آسان نہیں ہے،ایسے سینکڑوں خاندان ہیں جن کے لخت جگر دور ریاستوں میں نظربند رکھے گئے ہیں، ان والدین اور اہل خانہ کو اپنے لخت جگروں سے ملنے کیلئے مہینے میں صرف2بار اجازت ملتی ہے اور اس کیلئے انہیں زیر کثیر خرچ کرنا پڑتا ہے اور بہت سارے والدین یا اہل خانہ ایسے ہیں جن کے پاس اس کیلئے مالی وسائل بھی نہیں اور نہ ہی وہ ان جیلوں کے آس پاس قیام کرنے کی بساط رکھتے ہیں،مالی دشواریوں سے دوچار ان خاندانوں کیلئے اب کورونا وائرس کی صورت میں ایک اور مصیبت ٹوٹ پڑی ہے ،جس نے ان کی صحت کو خطرے میں ڈال دیا ہے،ایک ایسے وقت میں جب لوگوں کو سفر سے گریز کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے ان خاندانوں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے پیاروں سے صرف چند گھنٹوں کی ملاقات کیلئے اپنی قیمتی جان کو خطرہ میں ڈالیں۔‘‘